Categories
منتخب کالم

پی ٹی آئی قیادت کا موجودہ سحر اس معاشرے کو برباد کرکے رکھ دے گا ۔۔۔۔۔ایک معتبر کالم نگار کے دلائل پڑھیں اور اپنی رائے ضرور دیں

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگا ر سعید آسی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ویسے تو پی ٹی آئی قیادت نے اپنے اقتدار کے ساڑھے تین چار سالوں کے دوران بھی آئین و قانون کی عملداری پر اپنی من مانیوں کو ہی فوقیت دیئے رکھی ہے اور آئین و قانون کے تحت قائم مروجہ سسٹم کو کبھی قبول نہیں کیا

مگر پی ٹی آئی کے اقتدار کے آخری ایک ماہ کے دوران آئین‘ قانون اور انکے تحت قائم ریاستی اداروں کی جو درگت بنائی گئی اور ابھی تک بنائی جارہی ہے اسکی بنیاد پر تو مکمل جھاڑو پھیرے بغیر سیاست و معاشرت کو آئین و قانون اور اسکے تحت قائم سسٹم کے دائرے میں واپس لانا جان جوکھوں والا کام بن جائیگا۔ پھر کون سے ایسے ریاستی انتظامی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں جن سے پی ٹی آئی کے پھیلائے گئے شتربے مہار کلچر کو لگام دیکر اسے مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔ فی الوقت تو ہر ادارہ اور ہر اتھارٹی اس کلچر کے آگے بے بس نظر آتی ہے۔ سب حیران و ششدر کھڑے ہیں کہ اس کلچر میں آئین و قانون کی عملداری کیسے ممکن بنائی جائے۔ پی ٹی آئی قیادت کے عقیدت مندوں میں سے کوئی اپنے لیڈر کی کسی منطق کے برعکس کوئی بات سننے اور قبول کرنے کو تیار ہی نہیں‘ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ موجودہ کلچر میں آئین وقانون کی عملداری تسلیم کرانے کا مشکل ترین مرحلہ ہے جس میں کوئی عمل اسکے ممکنہ ردعمل کو سامنے رکھ کر ہی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ کلچر ایسا ہے کہ گوئبلز کے فلسفہ کی طرح جھوٹ اتنا بولو کہ سچ نظر آنے لگے اور گرد اتنی اڑائو کہ کسی کیلئے اپنا چہرہ صاف رکھنا اور دامن بچانا ممکن ہی نہ رہے۔ ورنہ تو آئین و قانون کی حقیقی معنوں میں پاسداری اور عملداری ہو تو کسی کی جانب سے مسلسل سرکشی اختیار کئے رکھنے کا تصور کرنا بھی ناممکن ہو جائے۔

آئین پاکستان کی دفعہ پانچ ذیلی دفعہ دو کے تحت تو بلاامتیاز ملک کے ہر شہری کو آئین کی مکمل تابعداری کا پابند کیا گیا ہے اور اسی آئین پاکستان کی متعلقہ دفعات کے تحت صدر اور گورنر کی اپنی کوئی اتھارٹی نہیں۔ انہیں بالترتیب وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی کسی بھی ایڈوائس کو من و عن قبول کرکے اسکے مطابق قدم اٹھانا اور ذمہ داری ادا کرنا ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے مناصب کا حلف اٹھاتے وقت بھی خود کو اس امر کا پابند کیا ہوتا ہے کہ وہ اپنے فرائض آئین کی روح کے مطابق ہی سرانجام دینگے اور آئین کا تحفظ و دفاع کرینگے۔ جن حکومتی اور ادارہ جاتی مناصب سے انہوں نے حلف لینا ہے انہوں نے بس حلف لینے کی ذمہ داری ہی نبھانی ہے۔ اس سے انکار کی آئین میں کوئی گنجائش ہے نہ ایسا کوئی اختیار صدر یا گورنر کو حاصل ہے۔ مگر صدر مملکت اور گورنر پنجاب کے مناصب پر فائز پی ٹی آئی کے لوگوں نے آئین کا تمسخر اڑانے کا جو تماشا گزشتہ تین ہفتوں سے لگایا ہوا ہے‘ متعلقین کو ادراک ہونا چاہیے کہ اس سے پیدا ہونیوالا بگاڑ آگے چل کر کس انتہاء تک جائیگا۔ صدر نے تو اپنے مخالف وزیراعظم اور انکی کابینہ کے ارکان سے حلف نہ لینے کا راستہ اپنی علالت ظاہر کرکے اپنے فرائض سے رخصت لے کر نکال لیا چنانچہ انکی عدم موجودگی میں آئین کے تقاضے کے تحت چیئرمین سینٹ نے قائم مقام صدر کی حیثیت سے وزیراعظم اور وزراء سے حلف لے لیا مگر گورنر پنجاب عمرسرفراز چیمہ نے تو اپنی من مانی اور آئین کے تقاضوں سے روگردانی کی انتہاء کر دی ہے

جن کے آئین شکنی والے اس طرز عمل کے باعث ہی پنجاب گزشتہ 25 روز سے سرے سے حکومت ہی سے محروم ہے۔ پہلے سپیکر پنجاب اسمبلی نے پی ٹی آئی قیادت کے ساتھ ملی بھگت کرکے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کی راہ میں روڑے اٹکائے اور جب لاہور ہائیکورٹ نے ڈپٹی سپیکر کو پریذائیڈنگ افسر مقرر کرکے انہیں وزیراعلیٰ کے انتخاب کا قانونی اور آئینی تقاضا پورا کرنے کی ہدایت کی تو پنجاب اسمبلی کے ایوان کو میدان لڑائی بنا کر ووٹنگ کا مرحلہ شروع ہی نہ ہونے دیا گیا اور جب بالآخر ڈپٹی سپیکر نے عدالت عالیہ کے احکام کی تعمیل کرتے ہوئے ووٹنگ کا پراسس مکمل کرادیا اور اسکے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ کے منصب پر منتخب قرار دے دیا تو سپیکر پنجاب اسمبلی نے جن کے اپنے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی سیکرٹیریٹ میں موجود ہے‘ وزیراعلیٰ کے انتخاب کو جعلی قرار دے ڈالا اور گورنر پنجاب نے پوری دیدہ دلیری کے ساتھ بغیر رخصت لئے اور قائم مقام گورنر کے تقرر کی نوبت آنے دیئے بغیر وزیراعلیٰ سے حلف لینے کی اپنی آئینی ذمہ داری نبھانے سے انکار کر دیا۔ یہ معاملہ دوبارہ ہائیکورٹ میں آیا اور ہائیکورٹ نے آئینی ذمہ داری سے انحراف کی اس صورتحال اور پنجاب میں کسی حکومت کا وجود نہ ہونے پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے صدر مملکت کو حکمنامہ جاری کیا کہ وہ اپنا کوئی نمائندہ مقرر کرکے وزیراعلیٰ پنجاب کے حلف کا پراسیس مکمل کریں مگر صدر نے بھی آئین سے انحراف ہی کی ٹھانے رکھی جبکہ گورنر نے وزیراعلیٰ سے حلف نہ لینے کے جواز نکال

کر صدر کو مراسلہ بھجوا دیا حالانکہ انکی آئینی ذمہ داریوں میں حلف نہ لینے کے کسی جواز کی گنجائش ہی نہیں نکلتی۔ تو کیا آئین و قانون کی عملداری کے حوالے سے متعلقہ اداروں کیلئے یہ لمحۂ فکریہ نہیں کہ ہائیکورٹ کی ہدایات کے تابع وزیراعلیٰ کے انتخاب کا پراسس مکمل ہوئے بھی آج دس روز گزر چکے ہیں جس کے بعد وزیراعلیٰ سے حلف لینے کیلئے صدر کو جاری کردہ ہائیکورٹ کی ہدایت بھی گزشتہ ایک ہفتے سے عملداری کی متقاضی پڑی ہے مگر عدالتی احکام کی تعمیل اور آئین کی عملداری کا تقاضا نبھانے کی بدستور نوبت نہیں آنے دی جارہی۔ کیا اس سے یہ تصور کرلیا جائے کہ آئین و قانون سے سرکشی اختیار کرنیوالوں کو اسی طرح کھلی چھوٹ ہی ملتی رہے گی اور انکے آگے آئین و قانون کی حکمرانی محض بے بسی کی تصویر بنی رہے گی۔ جنہوں نے آئین کی تعمیل و تابعداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے‘ حیرت ہے کہ دیدہ دلیری والی آئین شکنی کو دیکھ کر آئین شکنی کی دفعہ 6 والی سزا کا تصور انکے دلوں میں خوف کی کوئی تریڑی پیدا نہیں کررہا۔ جناب! اس معاشرے کو مزید بگاڑ کی جانب بڑھنے سے روک لیجئے ورنہ آئین شکنی کی ہلہ شیری دینے والا پی ٹی آئی قیادت کا ’’سحر‘‘ مہذب انسانی معاشرے کی ہر قدر کو ملیامیٹ کردیگا اور پھر ہمارے کسی اندرونی یا بیرونی دشمن کو ملک کی سلامتی کیخلاف کوئی سازش کرنے کی بھی کیوں ضرورت پڑیگی۔ سو لمحۂ موجود ہمارے مہذب انسانی معاشرے کا یقین دلانے کا متقاضی ہے۔ اسکے بعد تو بس تاسف ہی تاسف ہوگا۔