میاں صاحب : عمران دور حکومت کے اچھے کاموں کو نہ روکیے گا ورنہ ۔۔۔۔۔۔ سینئر صحافی نے شاندار بات کہہ ڈالی

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار علی احمد ڈھلوں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔اب تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوگئی ہے تاہم عمران حکومت نے کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں‘ مثلاً عمران خان نے آٹھ کروڑ شہریوں کے لیے صحت کارڈ فراہم کرنے کا اعلان کیا۔غریب آدمی کو علاج کی لگژری سہولیات کیا میسر آنا تھیں،

عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے کم آمدن والے طبقے کے لیے سستے مکانات کا وعدہ کیا تھا۔اس منصوبے کے لیے الگ سے ’’نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی‘‘ قائم کی گئی اور ابتدائی مرحلے میں سات شہروں میں مکانات کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔حکومت نے آسان گھر اسکیم کے تحت بینکوں کو آسان شرائط پر قرضہ فراہم کرنے کی بھی ترغیب دی جس میں 20 لاکھ سے لے کر ایک کروڑ تک قرضے مختلف مدت کے لیے فراہم کرنا شامل ہیں۔اسی کے ساتھ حکومت نے تعمیراتی شعبے کے لیے دو ایمنسٹی اسکیمیں متعارف کرائیں تاکہ اس کے ذریعے تعمیراتی شعبے کو فروغ دیکر ملک میں مکانوں کی تعمیرکے ساتھ نوکریاں بھی پیدا کی جا سکیں۔ پھر بلین ٹری منصوبہ جسے عالمی سطح پر ڈسکس بھی کیا گیا، اور سراہا بھی گیا۔ پھر احساس پروگرام اور پناہ گاہوں کو یکسر بند کر دیا گیا ۔ان پناہ گاہوں میں قیام کے ساتھ ساتھ تین وقت کھانا بھی مفت فراہم کیا جا رہا تھا۔ساتھ ہی ساتھ خواتین کو انکم سپورٹ پروگرام میں ’’کفالت‘‘ پروگرام کے تحت بینک اکاؤنٹس، غریب اور نادار افراد میں راشن کارڈز اجرا اور تحفظ کے نام سے مالی مدد کے پروگرامز شروع کیے۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ اگر موجودہ حکومت ان تمام منصوبوں کو روک دے گی۔ اور اگلی آنے والی حکومت موجودہ حکومت کی پالیسیوں کو روک دے گی تو کیسے ممکن ہے کہ یہاں کے عوام بھی چینی عوام کی طرح خط غربت سے نکل آئیں۔سیاستدانوں کا ظرف اعلیٰ ہوتا ہے، وہ عام آدمی سے زیادہ جلدی معاف کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،

لیکن ہمارے سیاستدانوں میں بدلا لینے کی آگ بڑھکتی رہتی ہے۔ اسی حوالے سے نیلسن منڈیلا کی زندگی کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیںکہ اقتدار میں آنے کے بعد ایک دن وہ کہیں جا رہے تھے کہ سڑک کنارے ایک عام ہوٹل میں کھانے کے لیے رک گئے۔ٹیبل پر بیٹھنے کے بعد کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی ان کے سامنے میز پر کھانا کھا رہا ہے کہ اچانک اس بندے کی نظر منڈیلا پر پڑی۔ اس کے حواس نے کام کرنا چھوڑ دیا اور بہت گھبرایا ہوا تھا۔ اسی اثناء میں نیلسن منڈیلا کے ساتھیوں نے پوچھا کہ یہ بندہ آخر کیوں ایسا گھبرایا ہوا ہے تو نیلسن منڈیلا نے اس بندے کو اپنی میز پر بلایا اور اپنے ساتھ کھانے پر بٹھایا، خوب کھانا کھلایا اور پھر اس کے بعد اس کو پیار محبت سے رخصت کر دیا۔ یہ سارا ماجرا نیلسن منڈیلا کے ساتھی دیکھ رہے تھے۔بندہ کے جانے کے بعد اس عظیم شخصیت نے اپنے ساتھیوں کو مخاطب کر کے کہا کہ یہ شخص قید خانے میں ڈیوٹی پر تھا اور اس کو مجھے سخت سزا دینے پر مقرر کیا گیا تھا اور یہ مجھے بہت زیادہ سخت سزا دیا کرتا تھا، بہت سختی سے میرے ساتھ پیش آتا تھا۔ آج جب اس نے مجھے دیکھا تو اسے وہ ظلم یاد آ گیا اور یہ یہی سوچ رہا تھا کہ اب میں اس سے بدلہ لوں گا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ایسے ہوتے ہیں عظیم لیڈر اور تاریخ کے سنہری اوراق کے پیامبر۔لیکن اس کے برعکس ہمارے وطن کے باسی بہت عجیب ہیں یہاں کا سسٹم اس قدر عجیب ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کب کوئی اقتدار میں آ جائے ۔ لیکن ہمیں اگر ترقی کرنی ہے تو ہمیں چین کی طرز کا ایک سسٹم بنانا ہوگا، تمام لوگ اس سسٹم میں سے گزر کر آئیں گے تو یقین مانیں خود بخود انتقامی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا اور ملک ترقی کرے گا۔