Categories
منتخب کالم

عمران خان کی زندگی اور سیاست ضروری نہیں پاکستان اور پاک فوج کی بقاء ضروری ہے ۔۔۔۔۔ حمایت ومخالفت میں حد سے گزر جانیوالوں کے لیے پاک آرمی کے ایک ریٹائرڈ کرنل کا خصوصی پیغام

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اور سابق آرمی افسر لیفٹننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ایک قاری نے ایک ایسے پہلو کی طرف توجہ دلائی جو اب تک میرے ذہن میں نہیں آیا تھا۔ وہ موضوع میں اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ:

”سابق وزیراعظم عمران خان نے اب تک تین عوامی جلسوں سے خطاب کیا ہے۔ پشاور، کراچی اور لاہور کے جلسے بہت بڑے جلسے تھے۔ ان میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ کیا آپ نے یہ جلسے اور ان میں عوام کا ہجوم نہیں دیکھا؟…… کیا اس ہجوم میں صرف ناخواندہ اور نیم خواندہ لوگ ہی تھے یا کچھ نہ کچھ لکھے پڑھے بھی تھے؟ یقینا ان میں لکھے پڑھے لوگ بھی ہوں گے…… کیا ان لوگوں کے عزیز و اقارب افواجِ پاکستان کا حصہ نہیں ہوں گے؟ اگر ہوں گے تو وہ عمران خان کی تقاریر سن کر واپس گھروں میں جائیں گے تو کیا اپنے ان فوجی بھائیوں، بھتیجوں، بھانجھوں، دامادوں اور بیٹوں کو یاد نہیں کریں گے جو اس وقت افواجِ پاکستان کا حصہ ہیں؟…… یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس ہجوم میں صرف سویلین لوگ اور ان کے عزیز و اقارب ہی ہوں گے؟ جو سویلین ہوں گے…… میں آپ کو باور کروانا چاہتا ہوں کہ عمران خان کو سننے والوں میں وہ مرد، خواتین، جوان اور بوڑھے بھی شامل ہوں گے جن کا کوئی نہ کوئی عزیز پاکستان کی سہ گانہ افواج (آرمی، نیوی، ایئر فورس) میں حاضر سروس ہوگا۔ اس عزیز کے دل کی خبر کون لا سکے گا؟ وہ عزیز خاصی کربناک کیفیت میں ہوگا۔ فوج کا کڑا ڈسپلن اس کا منہ بند رکھنے کی طرف اس کی رہنمائی کرے گا۔ لیکن پاکستانی آبادی کی اکثریت عمران خان کے خیالات سے متفق ہے۔ وہ بلاشک اس کا اظہار نہیں کرے گی لیکن جس انداز سے عمران خان ان جلسوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر رہا ہے

اس کا توڑ اس کے مخالفین کے پاس نہیں۔ یہ معاملہ اگر صرف سویلین آبادی تک محدود ہوتا تو ایک بات تھی۔ لیکن اب تو یہ ”وباء“ افواجِ پاکستان میں پھیل کر فوج کی فکر و نظر کو تقسیم کر رہی ہے۔ عمران خان کے آئندہ جلسوں میں بھی جتنے لوگ شامل ہوں گے ان میں حاضر سروس فوجی آفیسرز اور جوان بھی ہوں گے اور ریٹائرڈ بھی۔ سوشل میڈیا پر تو ان ریٹائرڈ فوجیوں نے دھوم مچا رکھی ہے۔ یہ لوگ اگر غلط سلط بات بھی کر رہے ہیں اور اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ یہ سب ”دشمن“ کے کارندے ہیں تو تب بھی باتیں تو ہوا کے دوش پر بکھر رہی ہیں۔ یہ بکھراؤ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ سارا جال دشمن نے پھیلا رکھا ہے اور وہ پَر کا کوا بنا کر اڑا رہا ہے تو پھر بھی نقصان کس کا ہو رہا ہے؟…… مجھے فکر عمران خان کے جانے کی نہیں، اس پر بحث ہو سکتی ہے کہ کون درست ہے اور کون غلط ہے، کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ نہ صرف پاکستان کی سویلین آبادی کی سوچ پولرائزیشن کا شکار ہو چکی ہے بلکہ فوج کا ایک بڑا حصہ (Segment) بھی اس کی تقسیم کی زد میں آ چکا ہے۔ فوج کی ایکتا اور وحدت۔ اس کی پروفیشنل قوت کی اساس ہوتی ہے۔ اگر اس اساس کو کسی بھی صورت سے اور کسی بھی حوالے سے کمزور کر دیا جائے

تو اس کے اثراتِ بد پاکستان کی سالمیت پر جا کر منتج ہوتے ہیں …… اور یہ کوئی چھوٹی بات نہیں، ایک بہت بڑا نقصان ہے!“فوج کی آرگنائزیشن میں اپنے وابستگانِ دامن (Rank and File) کی نبض محسوس کرنے کا بھی ایک فول پروف سسٹم موجود ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ فوجی ”راجواڑے“ کو اپنی ”رعایا“ کی کچھ خبر نہیں۔ دنیا کی کوئی بھی فوجی قیادت اپنی ”رعایا“ سے بے خبر نہیں رہ سکتی۔ یہ بات دوسری ہے کہ فوجی نظم و ضبط ایک پروفیشنل زباں بندی کا روپ دھار لے۔ لیکن یہ روپ آج نہیں تو کل سامنے آ کر رہتا ہے۔مجھے یاد ہے کہ 1969ء میں، میں 6ماہ کے ایک لسانی کورس پر کراچی میں تھا۔ ان ایام میں فیلڈ مارشل نے اپنے وزیرخارجہ کو سیک کر دیا تھا اور بھٹو صاحب جگہ جگہ جلسے کر رہے تھے۔ ایک بڑا جلسہ کراچی میں بھی تھا۔ ہم بھٹو صاحب کو سننے کے لئے جلسہ گاہ پہنچ گئے۔ ان کا اعلان تھا کہ وہ تاشقند کے رازوں سے پردہ اٹھائیں گے اور بتائیں گے کہ پاکستان 1965ء کی لڑائی جیت کر بھی کس طرح ہار گیا تھا۔ ہمارے اس کورس میں 25آفیسرز تھے اور میں ان سب سے جونیئر (نیم لفٹین) تھا۔ بھٹو صاحب سٹیج پر آئے۔ ان کی شعلہ بیانی تو ایک عالمگیر حقیقت تھی۔ انہوں نے پہلے اپنی ٹوپی (جناح کیپ) اتاری، پھر کوٹ اتارا اور پھر قمیض کی آستینیں اوپر چڑھائیں۔ اس پراسس میں ان کی تقریرکی گھن گرج بڑھتی چلی گئی۔ میرے ساتھ اور آفیسرز بھی تھے جو اس تقریر کو سننے جلسہ گاہ آئے تھے۔

پنجاب رجمنٹ کے کیپٹن (بعد میں بریگیڈیئر) اقبال بھی میرے ہمراہ تھے۔ہم دونوں یہ امید لے کر گئے تھے کہ آج ایک سیاسی تہلکہ ضرور ہوگا لیکن بھٹو صاحب نے تاشقند کے وہ راز اپنے سینے ہی میں رکھے اور ان کو طشت از بام نہ کیا۔ یہ واقعہ اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ آج 53 برس بعد سابق وزیراعظم عمران خان کے جلسوں میں جو لوگ آئے ہوں گے ان میں نہ صرف ریٹائرڈ فوجی حضرات ہوں گے بلکہ حاضر سروس حضرات بھی ہوں گے۔عمران خان کے یہ جلسے اس لئے بھی ”اداروں“ کے لئے قابلِ تشویش ہیں کہ ان جلسوں نے پاکستانی قوم کو بُری طرح تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ تقسیم پہلے بھی تھی لیکن فریقین کے مابین بامِ عروج اور فرشِ پاتال میں جس قدر آج فرق پایا جاتا ہے وہ پہلے کبھی نہ تھا۔ آج ہمارا میڈیا، ہمارے ادارے، حکومت اور اپوزیشن بہت بُری طرح منقسم ہو چکے ہیں۔ ان کو دوبارہ ایک لڑی میں پرونا میرے خیال میں ممکن نہیں ہوگا…… اس تقسیم کا ذمہ دار کون ہے، اس پر بحث و مباحثہ جاری ہے اور شاید آنے والے دنوں میں تادیر یہی چلن جاری رہے۔ لیکن اس میں پاکستان کی بدنصیبی کے گراف کو اوپر کی طرف جانے سے روکنا ایک نہائت کٹھن منزل ہوگی۔ ہر پاکستانی یہی دعا مانگتا ہے کہ یہ منزل آسان ہو جائے لیکن اب تو یہ ایشو پاکستان کا داخلی معاملہ نہیں رہا بلکہ ایک عالمگیر ایشو بن چکا ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان کے 85،90 لاکھ مرد اور خواتین جہاں کہیں بھی آباد ہیں۔ انہوں نے اس ”سانحے“ میں جس یک جہتی کا ثبوت دیا ہے وہ حد درجہ حیران کن ہے…… آسٹریلیا، امریکہ، فرانس، بلجیم، برطانیہ، دبئی اور دیگر غیر ملکوں میں بسنے والے پاکستانیوں نے جس جوش و خروش سے عمران خان کے حق میں آواز بلند کی ہے وہ وجہ صد حیرت ہے…… ہم پاکستان میں بیٹھ کر اس سے آنکھ موند لیں تو ہماری بدنصیبی!……ہم IMF کے 6ارب ڈالر کے مقروض ہیں اور بیرونِ ملک بسنے والے یہ پاکستانی ہمیں ہر سال 30ارب ڈالر زرمبادلہ کی شکل میں بھیجتے ہیں۔ذرا تصور کیجئے اگر وہ کسی برس اس خطیر رقم کو روک لیں تو پاکستان کو کتنا اقتصادی دھچکا پہنچے گا؟ اور ان کے اپنے عزیز و اقارب جو ان 90لاکھ بیرونِ ملک بسنے والوں کے ڈالر کا انتظار کرتے ہیں ان کا حالِ زبوں کتنا دیدنی ہوگا؟……