موٹر سائیکل والوں کو پٹرول پر کتنی سبسڈی ملے گی؟؟ فی لیٹر پٹرول کی قیمت کیا ہوگی؟؟ حیران کن تجویز سامنے آگئی

لاہور: (ویب ڈیسک) عدنان خان کاکڑ لکھتے ہیں کہ” یہ بات تو طے ہے کہ اب پٹرول مہنگا ہو گا، شاید 200 روپے فی لیٹر سے بھی زیادہ ہو جائے۔ اصول طور پر تو ہم اس کے کافی خلاف تھے چونکہ ہماری رائے میں پٹرول مہنگا ہونے سے ہر شے مہنگی ہو جاتی ہے، اس لیے کوئی طریقہ نکال کر اسے سستا ہی رکھنا چاہیے، لیکن پھر ایک دو مہینے پہلے تحریک انصاف کے دوستوں نے ہمیں قائل کر لیا کہ پٹرول مہنگا نہ کیا جائے تو ملکی معیشت تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہم تیار ہو چکے ہیں کہ 200 کیا پٹرول 300 روپے لیٹر بھی ہو جائے تو اس میں کوئی بھلائی ہی ہو گی جو ہماری فہم سے بالاتر ہے۔
مفتاح اسماعیل بتا چکے ہیں کہ ”جب کوئی کاروباری اپنی لینڈ کروزر کے لیے 80 لیٹر تیل خریدتا ہے تو عوامی پیسے سے وہ 1680 روپے کی سبسڈی پاتا ہے، اور جب کوئی صنعت کار اپنے جنریٹر کے لیے 2000 لیٹر تیل خریدتا ہے تو وہ عوامی پیسے سے ایک لاکھ سے بھی اوپر سبسڈی پاتا ہے۔ یہ کیسے منصفانہ اور قابل برداشت ہو سکتا ہے؟“مفتاح اسماعیل چونکہ خزانے کے ماہر ہیں اس لیے وہ درست کہہ رہے ہوں گے۔ ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کہ صنعت کار یہ ایک لاکھ روپے پا کر قومی خزانے کو ٹیکس کی صورت میں کتنے روپے لوٹا رہا ہے اور اس کی وجہ سے کتنے گھروں کا چولہا جل رہا ہے۔ ہم ان مشکل باتوں کے بارے میں سوچنے کی بجائے یہ سوچیں گے کہ موٹر سائیکل والوں کو کیسے سبسڈی دی جائے جس سے لینڈ کروزر اور جنریٹر والوں کو فائدہ نہ پہنچے۔ ایک سادہ سا حل تو یہ ہو سکتا تھا کہ لینڈ کروزر پر ٹوکن ٹیکس اتنا بڑھا دیا جاتا کہ سبسڈی اسی میں پوری ہو جاتی، مگر حکومتی ماہرین سادہ حل پسند نہیں کرتے اس لیے ہم کچھ اور سوچ لیتے ہیں۔اب ایسا کریں کہ جس شخص کے نام پر موٹر سائیکل رجسٹر ہے اسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ڈال کر ہزار روپیہ ماہانہ بھیجنا شروع کر دیں۔ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ لیکن مزید مسائل بھی پیدا ہوں گے۔ مثلاً اگر ایک شخص کی عمر 60 سال ہے اور اس نے 18 سال کی عمر سے اب تک 10 موٹرسائیکلیں خریدی ہیں تو وہ دس موٹر سائیکلوں پر دس ہزار ماہانہ پانا شروع ہو جائے گا۔ حالانکہ ان میں سے صرف ایک موٹر سائیکل زندہ ہے اور باقی نو موٹرسائیکلوں کے قبرستان پہنچ چکی ہیں۔ اب موٹر سائیکلوں کا رجسٹر اموات تو ہوتا نہیں، حکومت کیا ریکارڈ دیکھ کر ان دس پر پیسے دے گی؟
یاد پڑتا ہے کہ موٹر سائیکل کا سالانہ ٹوکن بھی نہیں ہوتا، اس سے بھی موٹر سائیکل کی زندگی کے بارے میں جاننے میں مدد نہیں ملے گی۔ فرض کریں کہ ٹوکن ٹیکس بحال بھی کر دیں تو وہ سال کا پانچ سو ہزار روپے ہی ہو گا۔ جتنی جینئیس ہماری قوم ہے، وہ مردہ موٹر سائیکلوں کا بھی سالانہ ہزار روپے ٹوکن دے کر ہر ماہ حکومت سے ہزار روپے وصول کر لے گی اور گیارہ ہزار منافع پائے گی۔ بہرحال مایوس مت ہوں۔ اس مسئلے کا بہترین حل ہمارے پاس موجود ہے جس کے ذریعے مردہ موٹرسائیکلوں کے نام پر پیسہ کھانے کے فراڈ سے بچنا مشکل نہیں۔ پیسے پانے کے لیے موٹر سائیکل کی زندگی کا ثبوت دینا ہو گا۔ اس ثبوت کے لیے موٹر سائیکل والے کے لیے سال میں ایک چالان کروانا لازمی شرط رکھ دی جائے۔ چالان کوئی بھی ہو سکتا ہے، ڈبل سواری، ٹرپل سواری، پانچ بندوں والی سواری، اشارہ توڑنا، ون وہیلنگ کرنا، کسی کو ٹکر دے مارنا، بس کسی طرح بھی موٹر سائیکل کی زندگی کا ثبوت دینا ہے۔ گو ہمیں احساس ہے کہ ہمارے اس بہترین منصوبے سے وہ لوگ بہت فائدہ اٹھائیں گے جو کرائے پر موٹر سائیکلیں دیتے ہیں اور ایک ایک کے پاس دس دس موٹرسائیکلیں ہو سکتی ہیں۔ اور وہ لوگ بھی تر جائیں گے جن کے دس دس بچے ہوتے ہیں اور ہر بچے کو انہوں نے ایک موٹر سائیکل لے کر دے رکھی ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ فی الحال ہمارے پاس اس مسئلے کا حل نہیں۔ اور بظاہر حکومت کے پاس بھی نہیں ورنہ وہ منصوبہ بندی کر کے دس دس بچے پیدا نہ ہونے دیتی۔یہ ایک طویل مدتی مفید منصوبہ ثابت ہو گا۔ عام حالات میں حکومت نے بعد میں حکومت نے سبسڈی واپس لینی ہو تو لوگ شور بہت مچائیں گے۔ اس کی بجائے حکومت چپ کر کے چالان کی رقم بڑھا دے۔ یوں سبسڈی کے تحت دی گئی رقم بھی موٹر سائیکل والے کے پاس ہر ماہ جایا کرے گی اور دوسرے روٹ سے حکومتی خزانے میں واپس منتقل بھی ہو جائے گی۔ یوں عوام بھی خوش، حکومت بھی خوش اور آئی ایم ایف بھی خوش۔ چھوٹی اور پرانی کاروں والے مڈل کلاسیے اس سبسڈی پر شور مچائیں گے۔ وہ کہیں گے کہ ٹھیک ہے کہ موٹر سائیکل پر چھے سات بندے بیٹھ جاتے ہیں، لیکن چھوٹی کار پر دس بندے اور سکول کی پک اپ پر بیس بندے بیٹھے عام دیکھے جا سکتے ہیں، اس لیے انہیں بھی سبسڈی دی جائے۔ ہمارے اس بہترین فارمولے کو استعمال کر کے انہیں بھی سبسڈی دی جا سکتی ہے۔ حکومت انہیں ماہانہ دو ہزار روپے دے اور ان پر چالان کی شرح زیادہ رکھ کر ان سے پانچ ہزار لے لے۔ یوں وہ اچھا بھلا پرافٹ کما سکتی ہے۔ یوں حکومت بیک وقت حاتم طائی بھی بن جائے گی اور خون نچوڑنے والی مہاجن بھی رہے گی۔