Categories
منتخب کالم

عمران خان اور ان کے چار کارندوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی ۔۔۔۔ عمرانی نظریات کے مخالف ایک سینئر صحافی نے دعویٰ کردیا

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار ناصر چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔عمران خان کا پاکستان کی سیاست میں فساد اور گند ڈالنے، فتنہ پیدا کرنے،ریاستی اداروں پر دھاوے ، ملک کو بدامنی کی طرف دھکیلنے اور آئین سے کھلواڑ کا کھیل ختم ہو چکا ہے۔ ایک جمہوری شکست کو مان لینا چاہئے تھا

کیونکہ ان کی حکومت تحریک عدم اعتماد جیسے جمہوری طریقہ سے ختم ہوئی۔ وہ ایک مخلوط حکومت تھی جو اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی تھی اور جب اتحادیوں نے مخلوط حکومت سے نکلنے کا فیصلہ کیا تو حکومت دھڑام سے گر گئی اور اس میں تحریک انصاف کے منحرف اراکین کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔بہتر ہوتا اگر عمران خان اپنی شکست تسلیم کرکے اپوزیشن میں بیٹھ جاتے تو ہم بھی کہتے کہ یہ جو ہر وقت مغربی جمہوریت اور برطانیہ کی مثالیں دیتے ہیں وہ ان پر یقین بھی رکھتے ہیں۔ برطانیہ کی سیاسی تاریخ میں 27 مرتبہ حکومت تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ ختم ہو چکی ہے۔ عمران خان اکثر بھارت کی مدح سرائی میں اتنا بڑھ جاتے ہیں کہ نریندر مودی کی بی ٹیم لگنے لگتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ ملک بھارت میں بھی تین مرتبہ تحریک عدم اعتماد سے حکومت ختم ہو چکی ہے۔ عمران خان صرف تاریخ کو توڑ مروڑ کر اپنے مداحین کو گمراہ کر سکتے ہیں ورنہ جمہوریت یا جمہوری رویے انہیں دور دور سے چھو کر بھی نہیں گذرے۔ اس وقت ایوان صدر میں عارف علوی اور پنجاب کے گورنر ہاؤس میں بیٹھے عمر سرفراز چیمہ اسی طرح آئین کو پامال کر رہے ہیں جیسے قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے کیا تھا۔ یہ چاروں آئینی عہدے ہیں لیکن ان چار اشخاص نے عمران خان کی شخصی غلامی کو اپنے آئینی کردار پر ترجیح دی اور عین ممکن ہے کہ عمران خان سمیت ان پانچوں افراد کو آئین شکنی

کے جرم میں کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے۔ تاریخ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ مصلحتوں سے بالاتر ہو کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیتی ہے۔ ایک بھی مورخ ایسا نہیں آئے گا جو عمران خان اور ان کے چاروں کارندوں کو معاف کر سکے۔ عمران خان تاریخ میں اپنا نام غلام محمد، اسکندر مرزا اور چاروں فوجی آمروں ایوب خان، یحی خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی فہرست میں درج کروا چکے جنہوں نے آئین شکنی کی، بلکہ عمران خان تو ایسے آئین شکن ثابت ہوئے جنہوں نے بار بار ہر دوسرے چوتھے دن آئین توڑا۔ کچھ ہفتے قبل میں نے عمران خان کو تاریخ کے دو بڑے سویلین ڈکٹیٹروں مسولینی اور ہٹلر کے ہم پلہ کہنا شروع کیا اور اب آہستہ آہستہ بہت سے تجزیہ نگار عمران خان کا موازنہ مسولینی اور ہٹلر سے کر رہے ہیں۔ اللہ نہ کرے پاکستان اس حال کو پہنچے جہاں مسولینی نے اٹلی اور ہٹلر نے جرمنی کو پہنچا کر عظیم شکستوں سے دوچار کر دیا تھا اور اپنے لاکھوں شہری مروا ئے اور اپنے اپنے ملکوں کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ اللہ کا پاکستان پر خاص کرم ہے کہ کسی ڈکٹیٹر کی رسی دراز ہونے سے پہلے کھینچ لیتا ہے۔ سویلین ڈکٹیٹر غلام محمد اور اسکندر مرزا بھی گھر گئے اور چاروں فوجی ڈکٹیٹر بھی۔ عمران خان کا حکومت میں آنا مسولینی جیسا تھا جس نے دھرنا دیا تھا اور پھر اس کی فاشسٹ پارٹی نے نام نہاد الیکشن کے نام پر

حکومت پر قبضہ کرکے ملک میں فسطائیت قائم کر دی تھی۔ یہی ہٹلر نے بھی کیا تھا کہ الیکشن کے نام پر حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد ملک میں بدترین ڈکٹیٹر شپ قائم کرکے سیاسی مخالفین اور میڈیا کو ریاستی جبر اور آمرانہ ہتھکنڈوں سے کچل دیا تھا۔ ہٹلر decrees جاری کرکے جابرانہ، آمرانہ اور انتقامی قوانین نافذ کرتا تھا، عمران خان یہی کام صدر عارف علوی کے آرڈی ننس اور سپیکر کی رولنگ سے کرتا تھا۔ مسولینی اور ہٹلر کو تو حکومت ختم ہونے کے بعد کچھ کرنے کا موقع اس لئے نہیں مل سکا تھا کیونکہ ہٹلرکو خود کشی کرنی پڑی تھی اور مسولینی کو عوام نے عبرتناک سزا دی ، البتہ حکومت جانے کے بعد عمران خان نے وہی طرز عمل اختیار کیا جو ڈیڑھ سال پہلے امریکی صدر ٹرمپ نے کیا تھا۔ امریکی ریاستی اداروں نے حرکت میں آکر صدر ٹرمپ کو ان کی بدامنی کرانے کی کوششوں سے باز رکھا۔ یہاں بھی عمران خان ایسے ہی حالات پیدا کر رہے ہیں اور فواد چوہدری اس کی وارننگ بھی دے چکے ہیں اس لئے اگر کسی نے حالات اس نہج پر لے جانے کی کوشش کی تو ریاستی اداروں کو حرکت میں آنا پڑے گا۔ اس وقت عمران خان کی ذہنی حالت ایک ہارے ہوئے جواری کی ہے جس نے سیاست، آئین، عوام اور پاکستان کے دوسرے ملکوں سے تعلقات سب کو داؤ پر لگا دیا ہے۔انگریزی میں اس کے لئے bad loser کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔ انہوں نے امریکی سازش کا جھوٹا بیانیہ گھڑا

جس سے قومی سلامتی کمیٹی دو مرتبہ انکار کر چکی ہے۔ سابق سفیر اسد مجید خان نے بھی سازش کو جھٹلایا جن کے کندھے پر عمران خان نے ریفل رکھ کر چلانے کی کوشش کی تھی۔ عمران خان جانتے بوجھتے ”نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے“ پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کے عالمی طاقتوں سے تعلقات بگاڑنے کی کوشش کرتے رہے لیکن جیسے جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اسی طرح دو مرتبہ وہ خود ہی اپنے جھوٹے بیانئے کی نفی کرچکے ہیں، پہلے لاہور کے جلسہ میں انہوں نے مقتدر حلقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں ”غلطی“ واپس لینے کی وارننگ دی اور پھر ہفتہ کو اسلام آباد کی پریس کانفرنس میں لندن میں بیٹھے میاں نواز شریف پر سازش کا الزام لگایا۔ گویا عمران خان کو خود بھی سمجھ نہیں آرہی کہ ان کے خلاف سازش کس نے کی اور ہر دفعہ وہ نئے لوگ نامزد کر دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف سازش خود عمران خان کی نالائقی، نا اہلی، جھوٹ، انا، تکبر، ضد، بد دماغی، آئین شکنی اور غیر جمہوری رویوں نے کی۔ ان کے کراچی اور لاہور کے جلسے بھی ان کے پچھلے جلسوں سے کم تھے۔ عوام کب تک آئین شکن کو برداشت کریں گے۔ پرویز مشرف نے دو بار آئین توڑا تھا، عمران خان بار بار توڑ رہے ہیں، ظاہر ہے آئین اور قانون اپنا راستہ خود لے گا، البتہ سیاسی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کا کھیل ختم ہو چکا ہے