بے وارث پنجاب!!! پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ کو وزیراعلیٰ کیوں نہ مل سکا؟؟ بحران کے پیچھے کس کا ہاتھ ؟؟؟ نیا پینڈورا باکس کھل گیا

لاہور: (ویب ڈیسک) نصرت جاوید لکھتے ہیں کہ” امریکی سازش“ کے الزام نے ہمارے معاشرے کے ذہین ترین اذہان کو بھی جس انداز میں مفلوج بنا رکھا ہے اس کے ہوتے ہوئے اس حقیقت پر توجہ ہی نہیں دی جا رہی کہ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلا پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ گزشتہ تین ہفتوں سے وزیر اعلیٰ کے بغیر چل رہا ہے۔ ڈرائیور کے بغیر ایک دیوہیکل مشین کو اس کے حال پر چھوڑ دینا بے تحاشا حادثات کا سبب ہو سکتا ہے۔
ہمارے میڈیا کی اکثریت تاہم اس کے بارے میں ہرگز فکرمند نظر نہیں آ رہی۔ سفاکانہ لاتعلقی پر غور کرتا ہوں تو بلھے شاہ یاد آ جاتا ہے جس کے دور میں پنجاب کا کئی دہائیوں تک ”برا حشر“ رہا۔ کس کی ماں کو ماسی کہیں جیسے محاورے نمودار ہوئے۔ یہ کالم گواہ ہیں کہ میں ذاتی طور پر عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کے عمل سے خوش نہیں تھا۔ میری تمنا تھی کہ اسے پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کرنے دی جاتی۔ دو ٹکے کے اخبار نویس کی ذاتی خواہش مگر سیاسی عمل پر اثرانداز نہیں ہو سکتی۔ اقتدار کا کھیل فقط سیاستدان ہی کھیل سکتے ہیں۔ وہ جائز یا ناجائز وجوہات کی بنا پر عمران حکومت کے تختہ الٹنے میں کامیاب ہو گئے۔ وفاق میں اس عمل نے زیادہ سے زیادہ تین دنوں تک ماحول کو گمبھیر تر بنائے رکھا۔ پنجاب میں قصہ مگر ختم ہونے ہی نہیں دیا جا رہا ۔ تحریری آئین کے ہوتے ہوئے بھی یورپ کے کئی بڑے اور طاقت ور ممالک کی آبادی اور رقبے کے برابر وطن عزیز کا سب سے بڑا صوبہ حکومت کے بغیر چل رہا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے ہمارے دشمن اگر پاکستان کو ”ناکام ہوتی ریاست“ پکاریں تو بخدا میرے پاس ان کا منہ توڑ جواب دینے کی اخلاقی قوت میسر نہیں ہے۔ ”راج ہٹ“ یا بادشاہوں کی من مانیاں کتابوں میں پڑھتے ہوئے اکثر یہ سوچتا تھا کہ خلق خدا انہیں کیسے برداشت کرتی رہی۔ میری بدقسمتی کہ اب انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ ”من مانی“ کا آغاز صدر عارف علوی سے ہوا۔ شہباز شریف اور ان کی کابینہ سے حلف لینے کے وقت وہ ”بیمار“ پڑ گئے۔ بیماری کے نام پر دکھائی اڑی پر تاہم قائم بھی نہیں رہ پائے۔ کابینہ کی دوسری قسط کے حلف اٹھانے کا مرحلہ آیا تو تندرست و توانا ہو گئے۔ خدا جانے تیسری قسط کے ساتھ ان کی صحت کا کیا عالم ہو گا۔
صدر کی نقالی میں عمران خان صاحب کے دیرینہ وفادار عمر سرفراز چیمہ دو قدم آگے جا چکے ہیں۔ اپنے منصب پر چند روز فائز رہنے کے بعد انہیں یاد آ گیا کہ عثمان بزدار صاحب نے استعفیٰ گورنر پنجاب نہیں وزیر اعظم کے نام لکھا تھا۔ چودھری سرور کی آنکھ یہ ”باریک نکتہ“ دیکھ نہیں پائی۔ مدعی سست اور گواہ چست کی موجودہ گورنر پنجاب کے رویے سے زیادہ مضحکہ خیز مثال ڈھونڈنا ممکن ہی نہیں۔ جن صاحب کو وہ اب بھی پنجاب کا وزیر اعلیٰ تصور کر رہے تھے ان کا اپنا یہ عالم ہے کہ گزشتہ کئی روز سے پولیس کے ایسے لمبے تڑنگے افسر تلاش کر رہے ہیں جو تخریب کاری اور دہشت گردی سے محفوظ رکھنے والی جدید ترین گاڑیوں میں سوار ہو کر ان کی 24 / 7 رکھوالی کریں۔ اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے سے چند ہفتے قبل انہوں نے حکومتی قواعد و ضوابط میں خاموشی سے ایسی تبدیلیاں متعارف کروائیں جو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے سبکدوش ہوئے فرد کو ماضی کے سلطانوں جیسا پروٹوکول یقینی بناتی ہیں۔ ہر پل کی خبر دینے کا دعوے دار میڈیا مذکورہ تبدیلیوں سے مگر بے خبر رہا۔ اس بے خبری کا تقابل قومی سلامتی سے متعلق ہوئے اجلاس کے حوالے سے ”بریکنگ نیوز“ بنی ”اطلاعات“ سے کریں تو حیرت ہوتی ہے جن کا دعویٰ ہے کہ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید صاحب وفاقی کابینہ کے طاقت ور ترین وزراء، مسلح افواج کے سربراہان اور قومی سلامتی کے نگہبانوں کے روبرو اس امر پر ڈٹے رہے کہ امریکی وزارت خارجہ کے انڈر سیکرٹری نے عمران حکومت کو رخصت کر دینے کی تڑی لگائی تھی۔یہ ”اطلاع“ فراہم کر دینے کے بعد اب انہیں ”ہیرو“ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ”قومی حمیت“ کے تحفظ پر ڈٹا افسر۔ یہ حقیقت مگر کوئی یاد ہی نہیں رکھ پا رہا کہ سرکار کی تنخواہ پر پلتے افسر ”ہیرو“ بن جانے کے بعد اپنی نوکری پر قائم نہیں رہتے۔ استعفیٰ دینے کو آمادہ نہ ہوں تو حکومت وقت کے پاس انہیں عبرت کا نشان بنانے کے ہزاروں حربے میسر ہوتے ہیں۔ اسد مجید صاحب کے ساتھ مگر ایسا ”سانحہ“ نہیں ہو گا۔ وہ چند روز بعد بلجیم کے دارالحکومت برسلز میں سفیر پاکستان کا منصب باقاعدہ سنبھال لیں گے۔ یہ شہر یورپی یونین کا صدر مقام بھی ہے۔ وہ اگر اپنی بات پر ڈٹے رہتے تو یورپ کے امیر ممالک پر مبنی مذکورہ اتحاد کا جونیئر ترین نمائندہ بھی ان سے حقائق کھل کر بیان کرنے کو آمادہ نہ ہوتا۔ امریکہ کے بعد یورپی یونین کے ممالک ہماری برآمدات کے دوسرے بڑے خریدار ہیں۔ ہمیں ان ممالک نے جی پی ایس کے نام پر ٹیکس کے ضمن میں حوصلہ افزائی کرتی رعایات بھی دے رکھی ہیں۔ اسد مجید یورپی یونین کے اعتبار کے قابل نہ رہے تو ہمارے قومی ہی نہیں ٹھوس اقتصادی مفادات کو بھی کڑی زک پہنچ سکتی ہے۔ اسد مجید کی دیومالائی بنائی ”بہادری“ فی الوقت میرا درد سر نہیں۔ اصل پریشانی یہ ہے کہ تین ہفتے سے اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ وزیر اعلیٰ اور اس کی کابینہ کے بغیر چل رہا ہے۔ تحریری آئین کے ہوتے ہوئے بھی سرکاری مشینری کی نگہبانی سے محروم ہوئے پنجاب میں خدانخواستہ کوئی سنگین مسئلہ کھڑا ہو گیا تو اس سے نبردآزما ہونے کی ذمہ داری کس کے سر تھوپی جائے گی۔ عمر سرفراز چیمہ مگر اپنے کپتان کی طرح ”ڈٹ کر کھڑے“ ہیں۔ مداحین سے ”جی داری“ دکھانے کی بنیاد پر داد و تحسین وصول کر رہے ہیں۔ عوام ریاستی خلفشار کے اس موسم میں کس کی ماں کو ماسی کہیں؟