وہ لاہور جو کہیں کھو گیا : ذکر ان قدیم حویلیوں کا جن کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں مشہور ہیں ۔۔۔۔۔

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اویس ناگی اپنے ایک سلسلہ وار کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول لوئر مال کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس اسکول کے ہیڈماسٹرز انگریز، ہندو اور پھر مسلمان بھی رہے، اس طرح سینٹرل ٹریننگ کالج کے پرنسپل بھی انگریز، ہندو اور مسلمان رہے،میو اسکول آف آرٹس (این سی اے )

کنیرڈ کالج، ایف سی کالج، وکٹوریہ گرلز ہائی اسکول اور لیڈی مکلیگن اسکول /کالج کے پرنسپل انگریز، ہندو، سکھ اور مسلمان ہی رہے۔ سینٹرل ماڈل اسکول کو اپنے دو ہیڈماسٹروں پیر زادہ ایم اے مخدومی (مرحوم) علی گوٹھ اور جی این بٹ پر ہمیشہ فخر رہے گا کہ ان دونوں نے انگریزوں کے بعد اس اسکول کا معیار مزید بہتر اور بلند کیا۔ موجودہ پرنسپل سیدہ نذہت شبیر اس اسکول کی پہلی خاتون پرنسپل ہیں۔ تاریخ میں ان کا نام بھی اسی حوالے سے لکھا جائے گا کہ یہاں پہلی مرتبہ کسی خاتون کو پرنسپل مقرر کیا گیاورنہ آج تک صرف مرد ہی اس اسکول کے ہیڈماسٹرز اور بعد میں پرنسپل مقرر ہوتے رہے۔ایم اے مخدومی کے دور میں 1944ء میں نارمل اسکول کی عمارت میں جونیئر ماڈل اسکول قائم کیا گیا جو اپنی نوعیت کا بڑا مختلف اور اعلیٰ اسکول تھا۔ سینٹرل ماڈل اسکول میں کچھ سیکشنوں کے بچے جونیئر ماڈل اسکول سے آتے تھے اور کچھ کو کلاس ششم میں ٹیسٹ کی بنیاد پر داخلہ دیا جاتا تھا۔ اس اسکول میں داخلے کے لیے ایوب خان کے دور میں مرکزی وزیر اور گورنر سفارش کیا کرتے تھے۔یہ لاہور کا پہلا اسکول تھا جہاں جی این بٹ ہیڈماسٹر نے دوسری شفٹ کا آغاز کیا۔ دوسری شفٹ دوپہر کو شروع ہوتی تھی مقصد یہ تھا کہ اس اسکول پر داخلوں کا جودبائو ہے اس کے پیش نظر جو والدین اپنے بچوں کو یہاں داخل کرانے کے خواہشمند ہیں، وہ انہیں یہاں دوسری شفٹ میں داخلہ کرا سکیں۔پھر اس اسکول میں تیسری شفٹ شروع کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا تھا

جو کسی وجہ سے شروع نہ کیا گیا البتہ دوسری شفٹ اس اسکول میں بڑی کامیابی سے چلتی رہی پھر 1980کی دہائی میں سیکنڈ شفٹ کو بھی ختم کر دیا گیا، دوسری طرف اس اسکول کے کسی بدذوق ہیڈماسٹر نے اسکول اور کالج کے پرنسپل، وائس پرنسپل اور ہیڈماسٹر کی انتہائی خوبصورت اور تاریخی کوٹھیوں کو گرا کر سینٹرل ماڈل اسکول دوم بنا دیا جس کا کوئی معیار نہیں۔ یہ تاریخی کوٹھیاں انگریزوں نے بنائی تھیں، کیا خوبصورت فنِ تعمیر تھا یہ کوٹھیاں 1985 کے بعد گرا دی گئیں، ان میں اعلیٰ انگریز افسر رہائش پذیر تھے، ان تاریخی کوٹھیوں کے بارے میں آپ کو آئندہ بتائیں گے۔سینٹرل ماڈل اسکول میں ڈی سی بجلی، فرنیچر بنانا اور لوہے کا کام سکھایا جاتا تھا جو پتہ نہیں کیوں بند کر دیا گیا۔یہ واحد ا سکول تھا جہاں بائیو گیس کے ذریعے لیبارٹریوں میں لیمپ روشن کئے جاتے تھے، کیا تاریخی اسکول تھا جس کو بری طرح تباہ کر دیا گیا۔اس ہفتے ہم ہیرامنڈی سے ہوتے ہوئے پانی والا تالاب میں واقع دو ایسی تاریخی حویلیاں دیکھنے چلے گئے جنہیں دیکھ کر بڑا لطف آیا یہ پانچ منزلہ حویلیاں ہیں اور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ لاہور کی بعض حویلیوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں آسیب اور بزرگوں کا سایہ ہے ان دونوں حویلیوں میں کچھ ایسی ہی صورتحال ہے، لوہاری دروازے میں واقع ایک حویلی کے بارے میں تو بہت خوفناک باتیں مشہور ہیں اس حویلی کا احوال بھی بتائیں گے۔ ان دونوں تاریخی حویلیوں میں زیادہ تر فلموں اور ڈراموں کی عکسبندیاں ہوتی ہیں،

حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ لاہور کا ایک تاریخی ورثہ ہے لیکن لاہوریوں کی بہت بڑی تعداد کو ان کا کچھ علم نہیں ان دونوں حویلیوں کو اویس میر نامی ایک ایسے شہری نے خریدا ہے جو پرانی اور قدیم عمارات اور چیزوں کے دلدادہ ہیں، ہم اپنے طالب علمی کے زمانے میں کئی مرتبہ اس گلی سے گزرے اور یہ دونوں حویلیاں باہر سے دیکھی تھیں لیکن ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ حویلیاں اندر سے اتنی خوبصورت ہیں، ان حویلیوں کی اکثر چیزیں آج بھی اپنی اصل حالت میں ہیں۔ مگر فرش جو کہ بعد میں بنایا گیا ہے وہ اس حویلی کے فنِ تعمیر سے کسی طور پر مماثلت نہیں رکھتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ حویلی اگرچہ چھوٹی اینٹ کی ہے مگر بعض دیواروں میں بڑی اینٹ بھی لگی ہوئی ہے۔ لاہور میں بڑی اینٹ کا استعمال بعض تاریخی حوالوں سے مغل دور میں شروع ہو چکا تھا مگر اصل میں بڑی اینٹ کا عمارتوں میں استعمال انگریزوں نے شروع کیا تھا چھوٹی اینٹ کے مکانات اور بے شمار تاریخی عمارتیں آج بھی لاہور میں موجود ہیں، اگر اس حویلی کی گلی اور ارد گرد کے علاقے کو صاف ستھرا اور خوبصورت کر دیا جائے تو دنیا ان حویلیوں کو دیکھنے آئے گی ہم جس وقت رام گوپال کی حویلی کے تہہ خانے میں گئے تو وہاں ایک عجیب وغریب احساس ہوا جس میں کچھ خوف اور ڈر بھی تھا یہ دونوں حویلیاں اگرچہ علیحدہ علیحدہ تھیں مگر اس کے موجودہ مالک اویس میر نے درمیان میں ایک دروازہ بنا کر دونوں حویلیوں کو آپس میں ملا دیا ہے۔اس حویلی کی سیڑھیاں بہت اونچی ہیں جن پر لکڑی کا کام ہوا ہوا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان دونوں حویلیوں میں تین سو برس میں آنے والے مکینوں نے کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور کی ہے۔