Categories
منتخب کالم

فیصلہ ہو چکا ہے اب اقتدار عمران خان کے حوالے صرف اس صورت میں کیا جائے گا اگر ۔۔۔۔ کالم نگار اشرف شریف نے بڑی خبر دے دی

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اشرف شریف اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔امریکی رکن کانگرس الہان عمر ایسے وقت پاکستان آئیں جب عمران خان اپنی حکومت کے خاتمہ کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دے کر بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں۔الہان عمر نے صدر مملکت عارف علوی‘ وزیر اعظم شہباز شریف

اور سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف سے ملاقاتیں کی ہیں۔الہان عمر نے ایک خصوصی ملاقات عمران خان سے کی۔یہ ملاقات سب سے زیادہ زیر بحث ہے۔ایک حکومتی بندے نے تو اس کی تحقیقات کرانے کا بیان تک جاری کر دیا ہے ۔بتایا گیا ہے کہ الہان عمر نے اسلامو فوبیا پر عمران خان اور ان کی جماعت کے موقف کی تعریف کی۔الہان عمر صومالین نژاد امریکی ہیں۔ماضی میں انہوں نے امریکی سماج میں افریقی اور مسلم برادریوں کے لئے متعدد بار آواز بلند کی۔سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور الہان عمر کے درمیان مسلسل نوک جھونک چلتی رہی۔الہان عمر نے شائد ہی کبھی پاکستان کے متعلق کوئی بیان جاری کیا ہو اس لئے ان کی پاکستان آمد اور حکومتی شخصیات کے ساتھ ساتھ عمران خان سے ملاقات کو کئی پہلو سے دیکھا جا رہا ہے امریکی حکام کا کہنا ہے کہ الہان عمر کا دورہ نجی نوعیت کا ہے اور اس کا انتظام الہان عمر کے دفتر نے امریکہ میں مقیم ایک پاکستان کاروباری شخصیت کی مدد سے کیا۔ الہان عمر 1982ء میں پیدا ہوئیں۔2019ء میں انہیں منی سوٹا سے کانگرس کی رکن منتخب کیا گیا۔وہ ڈیمو کریٹک فارمر۔لیبر پارٹی کی رکن ہیں۔کانگرس کی رکن منتخب ہونے سے قبل الہان ریاست منی سوٹا کے ایوان نمائندگان کی دو سال تک رکن رہی ہیں۔الہان کانگرس میں ترقی پسند گروپ کی سربراہ ہیں۔ان کا مطالبہ رہا ہے کہ کم از کم اجرت 16ڈالر کی جائے۔طلباء کے قرض معاف کئے جائیں‘ یو ایس امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ کا قانون ختم کیا جائے۔الہان عمر اپنے سیاسی کیریئر کی ابتدا سے

اسرائیل کی نقاد رہی ہیں۔انہوں نے اسرائیل کے بائیکاٹ اور اس پر پابندیوں کی تحریک کی حمایت کی۔فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی مخالفت کی اور فلسطین کے مقبوضہ علاقے میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کی مذمت کی۔الہان پہلی صومالی امریکی رکن کانگرس ہیں۔وہ پہلی سیاہ فام خاتون ہیں جس نے منی سوٹا کی نمائندگی کی۔کانگرس میں راشدہ طالب کے ساتھ وہ دوسری مسلمان خاتون رکن ہیں۔ الہان عمر صومالیہ میں پیدا ہوئیں۔سات بہن بھائیوں میں سے وہ سب سے چھوٹی ہیں۔ان کے والد نور عمر محمد صومالی فوج میں کرنل تھے۔الہان کی والدہ فادومہ حسین یمنی نژاد تھیں اور الہان کو دو برس کی عمر میں ان کی موت کا صدمہ سہنا پڑا۔الہان کی پرورش ان کے والد اور دادا نے سنی عقائد کے مطابق کی۔صومالیہ کی بدامنی کے دوران الہان کا خاندان چار سال کینیا کے ایک کیمپ میں رہا۔1995ء میں امریکہ نے خاندان کو سیاسی پناہ دی۔منی پولس میں الہان کے والد نے ٹیکسی چلانا شروع کی۔والد اور دادا نے انہیں ہمیشہ جمہوریت کی اہمیت سے آگاہ کیا۔14برس کی عمر میں الہان اپنے دادا کے ساتھ مترجم کے طور پر مختلف اجلاسوں میں جانے لگیں۔انہوں نے سکول میں بچوں کو تنگ کرنے اور حجاب کے معاملے پر بات کرنا شروع کی۔الہان کو سن 2000ء میں امریکی شہریت ملی۔تب ان کی عمر 17سال تھی۔انہوں نے پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل سٹڈیز میں گریجوایشن کر رکھی ہے۔ الہان دو ناکام شادیوں کے بعد تیسری بار گھر آبادکر چکی ہیں۔ الہان کے دورہ پاکستان سے دو روز پہلے امریکہ نے پاکستان کے لئے 300 ملین ڈالر سے زیادہ کی

امداد کا اعلان کیا۔الہان کا دورہ خالصتاً نجی سمجھا جائے تو پھر صدر مملکت اور وزیر اعظم سے ان کی ملاقات کیسے ہوئی۔اسے یوں دیکھ لیں کہ انہوں نے تین بڑی جماعتوں کے نمائندوں سے ملاقات کی۔پیپلز پارٹی کے سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف اورمسلم لیگ ن کے صدر و وزیر اعظم شہباز شریف اور عوامی مقبولیت کی لہر پر سوار پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سے مل کر انہوں نے صرف اسلامو فوبیا پر بات نہیں کی۔الہان ایک افریقی النسل مسلمان ہونے کے ساتھ امریکی شہری ہیں۔ وہ امریکی نظام سیاست کی بین الاقوامی جہتوں سے اس لئے جڑی ہوئی ہیں کہ ان کی ساری جدوجہد میں اسلام‘مسلمان ،سیاہ فام اور خواتین کے حقوق نمایاں ہیں۔پوری بات تو وہی لوگ بتا سکتے ہیں جن سے الہان عمر کی ملاقات ہوئی لیکن حکومتی خاموشی اور عمران خان کے جلسہ لاہور میں امریکہ کا نام لینے کی بجائے امپورٹڈ حکومت کے الفاظ استعمال کرنا بتاتا ہے کہ امریکہ موجودہ سیاسی نظام میں اپنے اثرورسوخ کو ایک بار پھر یقینی بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اس بار پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ‘سیاسی جماعتیں بشمول پی ٹی آئی ایک حقیقت پسندانہ درجے پر امریکہ کے ساتھ تعلقات پر متفق ہو رہے ہیں۔امریکہ سے دشمنی اچھی نہ دوستی۔حالات اشارہ دے رہے ہیں کہ عمران خان کے سامنے آپشن رکھ دیے گئے ہیں۔ عوام کی جانب سے مینڈیٹ ملنے پر انہیں اقتدار انہی آپشنز کو سامنے رکھ کر منتقل کیا جائے گا۔الہان عمر کے دورے کی حد تک پاک امریکہ تعلقات میں مثبت پیشرفت ہوئی ہے۔