Categories
منتخب کالم

ایک بار عمران خان اور مہاتیر محمد نے ملکر اسلامی ممالک کا بلاک بنانے کا پروگرام بنایا تھا ؟ پھر کس کو کہاں سے فون آیا اور معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ؟ کچھ تلخ حقائق

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار وسعت اللہ خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔جیسے عمران خان کے سابق برادرِ نسبتی اور وزیرِ مملکت زیک گولڈ اسمتھ نے ان کے حق میں ایک آدھ حالیہ ٹویٹ بھلے ذاتی حیثیت میں کیا ہو لیکن چونکہ وہ حکمران کنزرویٹو کابینہ میں شامل ہیں

لہٰذا ان پر انھی کی پارٹی کی جانب سے تنقید بھی ہوئی۔اسی طرح جب لندن کے میئر کے انتخاب میں عمران خان نے پاکستانی نژاد صادق خان کے مقابلے میں زیک کی امیدواری پر مثبت ردِعمل دیا تو بھلے اس پر کچھ لوگ چیں بہ جبیں ہوئے ہوں مگر یہ ایک فطری بات تھی۔البتہ آزاد خارجہ پالیسی محض جذباتی وابستگی پر استوار نہیں ہوتی۔جیسے سعودی عرب سمیت برادر خلیجی ممالک کے بھارت سے تعلقات برابری کی سطح پر ہیں۔ معاملہ اقتصادی مفادات کا ہے لہٰذا ان تعلقات پر ’’ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے ‘‘ کا اصول لاگو ہوتا ہے۔مگر پاکستان سے انھی ریاستوں کے تعلقات ’’اس ہاتھ دے اور اس ہاتھ سے بھی دے ‘‘ کے اصول پر ہیں۔اگرچہ وہ ہمارے بڑے بھائی ہیں لیکن ہم ان کے غریب عزیز ہیں۔ایسا عزیزم امیر خلیجی ممالک اور ایک مضبوط بھارتی منڈی کے روز افزوں تعلقات پر کسمسا تو سکتا ہے مگر بڑے بھائی کو اپنی فرسٹریشن نہیں سمجھا سکتا۔ایک بار خان صاحب نے مہاتیر محمد اور اردگان کے ساتھ مل کر ہمت تو جٹائی تھی ایک متوازی مسلم بلاک بنانے کے لیے۔مگر پھر ایک ضروری فون آ گیا کہیں سے۔جب کہ ترکی کا خلیجی ممالک کے ساتھ رویہ ہمیشہ ترکی بہ ترکی کا رہا۔کیونکہ ترکی کی محتاجی بھی برابری کی محتاجی ہے۔چین اور پاکستان کے تعلقات مثالی ہیں۔مگر کیا وہ برابری کی سطح پر ہیں؟ بھارت اور چین کے سیاسی تعلقات انتہائی خراب ہیں مگر کیا چین یہ بات نظرانداز کر سکتا ہے کہ اس کی دو طرفہ تجارت کا حجم آج بھی ستر ارب ڈالر سے اوپر ہے۔چین پاکستان میں پیسے لگا رہا ہے اور بھارت سے اسے آمدنی ہو رہی ہے۔دشمنی اپنی جگہ معاشی سمبندھ اپنی جگہ۔اور یہ ہمیشہ غریب ممالک میں ہی سازش سے آخر حکومت کیوں تبدیل ہوتی ہے۔معاشی و اسٹرٹیجک لحاظ سے اہم متوسط و امیر ممالک میں رجیم چینج باہر سے کیوں نہیں ہوتی ؟خان صاحب آزاد خارجہ پالیسی کے مثالیے کے طور پر بھارت کا نام تو لیتے ہیں مگر ایرانی خارجہ پالیسی کو وہ کس خانے میں فٹ کریں گے ؟ امریکا مخالف ایران چالیس برس سے ایک ہی فقرے پر چل رہا ہے ’’ تپڑ ہے تو پاس کر ورنہ برداشت کر ‘‘۔مگر اس کے لیے پنگا پسند قیادت میں بھی تپڑ چاہیے۔ہم ایسے کیوں ہیں ہم ویسے کیوں نہیں ؟ اس کا جواب باہر ڈھونڈنے کے بجائے اندر ڈھونڈ کر اپنا اور دوسروں کا وقت ضایع کرنے سے بچانا بھی تو اتنا ہی اہم ہے جتنا آزادی کا خواب دیکھنا۔ پہلے اپنے آپ سے آزاد ہو جائیں تو بیرونی آزادی بھی بونس میں مل جائے گی۔