وہ شعبے جن میں نوجوان ملازمت کا آغاز ہی بڑی بڑی تنخواہوں سے کرتے ہیں!!! مگر کیسے؟؟؟

لاہور: (ویب ڈیسک) حال ہی میں گریجوئیشن کرنے والے چند نوجوان اپنی ملازمت کا آغاز ہی اُس تنخواہ پر کر رہے ہیں جو بہت سارے دیگر ملازمین اپنے پورے کیریئر میں شاید کبھی حاصل نہیں کر سکیں گے، لیکن اس کے دور رس نتائج کیا ہوں گے ؟ ڈیوِس نگُوین ایک کالج میں طلبا کو کیریئر کا انتخاب کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور اس کے حصول کے لیے مشورے دینے کے کام میں مہارت رکھتے ہیں۔ سٹوڈنٹ کونسلنگ ایک ایسی صنعت ہے جس سے وابستہ ماہرین کو معقول معاوضہ ملتا ہے۔
کورونا کی وبا پھیلنے سے پہلے ہی کچھ بڑی فرموں نے انڈرگریجویٹ طلبا کو تنخواہوں کی پیشکش کی جو اکثر لاکھ، لاکھ پاؤنڈز تک ہوتی ہیں۔ تاہم موجودہ مارکیٹ میں نگُوین کے پاس مشاورت کے لیے آنے والے اچھی ملازمتیں حاصل کر رہے ہیں۔ امریکی ریاست جارجیا میں مقیم ’مائی کنسلٹنگ آفر‘ کے بانی نگوین بتاتے ہیں کہ ’وہ (ان کے طلبا) واپس آئیں گے اور کہیں گے کہ ’میرے پاس دو زبردست آفرز ہیں‘، ان میں سے ایک 120,000 ڈالر لے رہا میں ہے، دوسرا 140,000 ڈالر تنخواہ پر ملازم ہے۔ آج کل کے ماحول میں نئے گریجویٹس چند سال پہلے کی نسبت بہت زیادہ پیسے کما سکتے ہیں۔‘ ’مینجمنٹ کنسلٹنگ‘ ان شعبوں میں شامل ہے جس میں گریجویٹس کالج سے فارغ التحصیل ہوتے ہی سیدھے لاکھ لاکھ ڈالرز کی تنخواہ حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ وہ تنخواہ ہے جو عام طور پر عام گریجویٹس اپنے سارے کیریئر کے دوران کبھی نہیں حاصل کر پاتے۔ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں ملازمت کے آغاز پر ہی سافٹ ویئر انجینیئرز کی اکثریت اس سطح کی تنخواہوں سے ملازمت کا آغاز کر رہے ہیں۔ بینکنگ سے وابستہ کارپوریشنوں میں ملازمت اختیار کرنے والے تجزیہ کار (اینالسٹس) اپنی ملازمت کے پہلے ہی برس اپنی تنخواہ میں تقریباً 30 فیصد کا اضافہ لے لیتے ہیں۔ کچھ معاملات میں نئے گریجویٹس کی بنیادی تنخواہیں 110,000 ڈالر ہیں۔ لندن کی سب سے بڑی قانونی فرموں میں، کچھ نئے قابل وکیل اپنے کیریئر کا آغاز 107,500 پاؤنڈ تنخواہ (141,115 ڈالر) سے کرتے ہیں۔ نگُوین کا کہنا ہے کہ ’20 سال کے بچے اپنے کیریئر کا آغاز ہی لاکھ لاکھ ڈالر تنخواہ سے کر رہے ہیں۔ یہ رجحان موجودہ وبا کے بعد سے تیزی سے ایک معمول بن گیا ہے۔‘ ایسے اکثر نوجوان اُن فرموں میں شامل ہو رہے ہیں جہاں ان کے سینیئر کولیگز نے اپنی ملازمت کا آغاز کم تنخواہ سے کیا تھا اور انھیں لاکھ لاکھ ڈالر کے ہدف تک پہنچنے میں کئی برس لگے۔ ایسے ادارے اس رجحان کے بارے میں کہتے ہیں کہ نئے گریجویٹس کو زیادہ تنخواہوں کی پیشکش دراصل مارکیٹ کی ضروریات یا رجحانات کی وجہ سے کی جا رہی ہے۔
ملازمتوں کے بحران کا مطلب ہے کہ یہ دراصل قابل اور باہنر افراد کو اپنی اپنی کمپنیوں میں لانے کے سخت مقابلے کی وجہ سے ہے۔ اگر کوئی آجر (ملازمت فراہم کرنے والا شخص یا ادارہ) چاہتا ہے کہ بہترین نوجوان زیادہ گھنٹوں کے لیے ان کے لیے کام کرنے کے لیے تیار ہوں تو انھیں اس کے لیے بھاری تنخواہ ادا کرنی ہو گی۔ تاہم کیا گریجویٹس کو بھاری تنخواہیں دینے سے آجروں کو واقعی فوائد حاصل ہوتے ہیں، جیسے زیادہ گھنٹے کام کرنے کی ترغیب دینا یا کام کی اخلاقیات کو بڑھانا؟ یا کیا یہ رجحان زیادہ کمانے والے نوجوانوں اور وسیع افرادی قوت، دونوں کے لیے غیر ارادی نتائج پیدا کر سکتا ہے؟ اعلی تنخواہ ایک توقع ہے‘ گریجویٹس کے لیے تنخواہوں میں سالوں سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ کی غیر منافع بخش تنظیم ’نیشنل ایسوسی ایشن آف کالجز اینڈ ایمپلائرز‘ کے سنہ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق، مخصوص شعبوں میں نووارد نوجوانوں کی ابتدائی تنخواہوں میں ڈرامائی طور پر بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کرنے والوں کی اوسط اجرت 72,173 ڈالر تک بڑھ گئی ہے، جو کہ صرف ایک سال میں سات فیصد اضافہ بنتا ہے۔ سٹینفورڈ یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر نکولس بلوم کہتے ہیں کہ کئی شعبوں میں محنت کی ڈیمانڈ اس کی سپلائی کی نسبت بہت زیادہ بڑھ رہی ہے، خاص طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں۔ مالیاتی صنعت (فنانشل سیکٹر)، جہاں ایسی ملازمتیں ہوتی ہیں جن میں اکثر نوجوانوں کو ایک ہفتے میں 70 گھنٹے سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، نے بہترین امیدواروں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے ابتدائی تنخواہوں میں بھی کافی زیادہ اضافہ کیا ہے۔ سوسائٹی فار ہیومن ریسورس مینجمنٹ کے مشیر، رُو ڈُولی کہتے ہیں کہ زیادہ تر معاملات میں نئے گریجویٹس کو لیبر مارکیٹ کے موجودہ حالات کے پس منظر میں محض ایک ’بلنٹ ریکرومنٹ ٹُول‘ کے طور پر لاکھ لاکھ ڈالروں کی تنخواہوں کی پیشکش کی جاتی ہیں۔
ڈُولی کا کہنا ہے کہ ’کارکنوں کو اُن کے آجر کا ایک قیمتی اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔ نوجوان ملازمین کہہ رہے ہیں کہ زیادہ تنخواہ ان کی ایک توقع ہے اس لیے نہیں کہ وہ لازمی طور پر اس کا مطالبہ کرتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ وہ ٹیلنٹ کی کمی سے واقف ہیں اور وہ اپنی قیمت بھی جانتے ہیں۔‘ اس کا مطلب ہے کہ ملازمت کے آغاز میں کچھ طلبا کالج کے ہوسٹل کو چھوڑنے سے پہلے ہی بھاری تنخواہوں کے عوض بھرتی کر لیے جاتے ہیں۔ بلوم مزید کہتے ہیں کہ ’ہم باقاعدگی سے ہر 18 ماہ میں فرموں کو دگنا سائز میں بنتا ہوا دیکھ رہے ہیں لہذا نئے گریجویٹس کی تنخواہیں مارکیٹ کے رجحان کے مطابق بڑھ رہی ہیں۔‘ ٹیکنالوجی کے شعبے میں چھوٹے سٹارٹ اپس میں بھی اب انٹری لیول کے ملازمین کو بڑی کارپوریشنوں سے ملنے والی تنخواہوں سے زیادہ اجرتیں ادا کرنا پڑ رہی ہیں۔ نیو یارک سٹی میں مقیم ریکروٹمنٹ مارکیٹ پلیس ہائرڈ کے سی ای او جوش برینر کا کہنا ہے کہ امریکی آجر پہلے سال کے ٹیک ورکرز کو 110,027 ڈالر کی اوسط ابتدائی تنخواہ ادا کر رہے ہیں۔ نگوین کے زیرِ تعلیم گریجویٹ کلائنٹس اکثر اتنی زیادہ تنخواہ والی ملازمتیں حاصل کرتے ہیں جو ان کی اپنی پہلی کنسلٹنسی کے کردار کی ملازمت کی تنخواہ سے بھی کافی زیادہ ہوتی ہے۔ وہ اسے ایک اچھی چیز مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آج کل جو لاکھ لاکھ ڈالر کی ابتدائی تنخواہیں بڑھنے کا رجحان ہے یہ دراصل کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ زیادہ تنخواہ ان لوگوں کے لیے نئے مواقع کھلتے ہیں جو شاید ان لوگوں کے پاس نہیں تھے جنھوں نے کم تنخواہ پر ملازمت کا آغاز کیا، اس لیے رجحان ان کو خاص نقصان نہیں پہنچاتا ہے۔‘ اگرچہ لاکھ لاکھ ڈالروں کی تنخواہوں میں اضافے کے بہت سے پہلو ہیں، لیکن اعلیٰ معاوضے دینے کے خطرناک نتائج بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ بعض صورتوں میں یہ نئے گریجیوٹس جو اتنی بڑی بڑی تنخواہیں لے رہے ہیں یہ اپنے آپ کو ان ملازمتوں میں پھنسا ہوا بھی محسوس سکتے ہیں جس سے وہ نفرت کرتے ہیں، خاص طور پر اگر انھوں نے اپنی زندگی بڑی بڑی آمدن کی بنیاد پر منظم کی ہے، یہ ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جسے عموماً ’سونے کا پنجرا‘ کہا جاتا ہے۔
نگوین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی اجرتیں نوجوان ملازمین کے تنخواہ کے بارے میں صحیح تصور نہیں بنا پاتی ہیں اور کم آمدن کو وہ درست تصور نہیں کر سکتے ہیں، یہ ایسی بات ہے جو انھیں کیریئر کے زیادہ بامعنی راستے اختیار کرنے سے روکتی ہیں۔ ’کچھ لوگ آخرکار ٹیچنگ یا غیر منافع بخش اداروں کے لیے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘ بھاری تنخواہیں نوجوانوں پر شدید نفسیاتی دباؤ بھی ڈال دیتی ہیں۔ نگُوین کا کہنا ہے کہ ان کے کچھ انڈرگریجویٹ صارفین اپنی کام کی زندگی کو ایک ایسی نوکری سے شروع کرتے ہوئے خوف محسوس کر سکتے ہیں جس سے وہ بہت زیادہ تنخواہ لیتے ہوں۔ ’کچھ ایسے ہیں جو کم آمدنی والے پس منظر سے آتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ’میں نے ایسا خاص کیا کیا ہے کہ میں اپنے والدین سے زیادہ کما رہا ہوں؟‘ یہ امپوسٹر سنڈروم (یعنی یہ یقین کہ آپ اتنے اہل نہیں ہیں جتنا کہ لوگ سمجھ رہے ہیں) کا سبب بن سکتا ہے۔‘ اس کے علاوہ ان نوجوانوں کو ملازم رکھنے والی تنظیموں کو وہ فائدہ نہیں ہوتا ہے جتنی کہ وہ تنخواہیں ادا کرتے ہیں۔ اس کے دیگر افراد بھی منفی اثرات محسوس کر سکتے ہیں جب پہلی بار ملازمین کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے لاکھ لاکھ ڈالر کی تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر تجربہ کار ساتھی ملازمت کے آغاز کی سطح کے معاوضے کی پیشکشوں پر جھنجھلا سکتے ہیں، خاص طور پر جب وہ کمپنی میں برسوں کی مدت ملازمت کے باوجود حالیہ گریجویٹس کے مقابلے میں کم تنخواس لیتے ہیں۔ ڈُولی کا کہنا ہے کہ ’یہ تنخواہ میں تفاوت کے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔‘
مزید برآں یہ بھی ضروری نہیں کہ یہ کمپنیاں اتنا فائدہ حاصل کریں جس کے لیے وہ بڑی بڑی تنخواہ ادا کرتے ہیں۔ اگرچہ بہت زیادہ اجرت مؤثر طریقے سے ایک امیدوار کو عمومی وقت کی حد بہت زیادہ دیر تک کام کرنے کی جانب مائل کر سکتی ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ بہتر کام کی اعلیٰ اخلاقیات کی ضمانت بھی دیتی ہو۔یونیورسٹی کالج لندن میں بزنس سائیکالوجی کے پروفیسر ٹامس چامورو کہتے ہیں کہ ’خطرہ آجروں کو ہے، بعض صورتوں میں فرض کریں کہ عملہ اپنے زیادہ معاوضے کی وجہ سے بہت حوصلہ افزائی محسوس کرتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ یہ سمجھتے ہیں زیادہ تنخواہ کے تو ہم حق دار ہیں۔ جب کسی کو نوکری ملتی ہے تو زیادہ اجرت اچھی لگتی ہے لیکن ایک بار جب وہ نوکری شروع کر دیتے ہیں تو وہ عام طور پر اس میں اضافہ چاہتے ہیں، اچھی تنخواہ ملنے کے ابتدائی اثرات نفسیاتی طور پر جلد ختم ہو جاتے ہیں۔‘ لیبر مارکیٹ، جیسا کہ یہ ہے، لاکھ لاکھ ڈالر کی ابتدائی تنخواہیں غالباً کچھ زیادہ تنخواہ دینے والی والی صنعتوں میں معمول کے مطابق رہیں گی۔ لیکن اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ان زیادہ تنخواہوں والی ملازمتوں کی وجہ سے کم درجے کے شعبوں میں داخلے کی سطح کے نوجوانوں کی تنخواہوں میں اضافے کا کوئی اثر پیدا ہو گا۔ تمام شعبوں میں اجرتوں کو بڑھانے کے بجائے نوجوان ملازمین کے انتہائی مراعات یافتہ حصے کے لیے لاکھ لاکھ ڈالر کی تنخواہ دیگر شعبوں کے درمیان تنخواہوں کے فرق کو زیادہ گہرا کر سکتی ہیں۔ بلوم کہتے ہیں کہ ’ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ واضح طور پر عدم مساوات میں اضافہ کر رہا ہے اور فرق بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اگر آپ کے پاس کمپیوٹر سائنس کی ڈگری ہے تو آپ 25 ہزار سے 250,000 ڈالر کما سکتے ہیں جب کہ اگر آپ نے 16 سال کی عمر میں سکول چھوڑ دیا تو آپ 25,000 ڈالر کما رہے ہوں گے، یہ دس گنا فرق ہے۔‘
یہ فرق ممکنہ طور پر بڑھتا رہے گا چاہے لیبر مارکیٹ طلب اور رسد کے لحاظ سے یہ فرق ختم بھی کر دے۔ بلوم بتاتے ہیں کہ جب اجرت اکثر بڑھ جاتی ہے تو وہ عموماً کبھی نہیں گرتی۔ مثال کے طور پر نگوین کا کہنا ہے کہ مینیجمنٹ کنسلٹنسی میں تنخواہوں نے طویل عرصے سے کساد بازاری کی سختیوں کو برداشت کیا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اجرت بہت سارے معاشی چکروں کا مقابلہ کرتی ہے۔ فرمیں اس کے لیے منصوبہ بندی کرتی ہیں اور تنخواہوں کے نظام کی تنظیم نو کرتی ہیں، لیکن وہ کبھی بھی لاکھ لاکھ ڈالر والی تنخواہ سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پاتی ہیں۔‘ لہٰذا مارکیٹ کے تیز رفتاری کے خلاف ان کی مزاحمت کو دیکھتے ہوئے لاکھ لاکھ ڈالروں والی تنخواہوں والے گریجویٹس کے لیے نہ صرف اجرتوں میں زیادہ سے زیادہ مضبوط ہونے کا امکان ہوتا ہے، بلکہ وہ بہت زیادہ بھی بڑھ بھی سکتی ہیں۔ اور اگر لیبر مارکیٹ کو معمول پر لانے کی وجہ سے ملازمتیں کم ہو جاتی ہیں تو یہ تنخواہوں کا پیکٹس زیادہ تر لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گے۔ بلوم کہتے ہیں کہ ’لاکھ لاکھ ڈالروں کی ابتدائی تنخواہیں یہاں برقرار رہنے کے لیے ہیں، اور اگر یہ نمو کم ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان جیسی ملازمتوں کا حصول مشکل ہو جائے گا۔ جب تک یہ ملازمتیں موجود ہیں آپ انھیں حاصل کر سکتے ہیں، اگر آپ حاصل کر سکتے ہیں، تو یہ صرف چند مراعات یافتہ لوگوں کے لیے ہو گا۔‘