وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب چھا گئیں ،عہدہ سنبھالتے ہی بڑا کھڑاک ، ہر طرف بلے بلے ہو گئی

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار مصطفیٰ کمال پاشا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔مریم اورنگزیب صاحبہ کون ہیں؟ ایک کارکن ٹائپ سیاسی جدوجہد کرنے والی باوقار خاتون، جنہوں نے قمرالزمان کائرہ، شیخ رشید، فواد چودھری اور پرویز رشید جیسے منجھے ہوئے جغادری قسم کے ”ماہرین سیاسی ابلاغ“ کے مقابل اپنی کارکردگی دکھائی

اور صلاحیت منوائی ہے۔انہوں نے طوفانی اور جولانی قسم کے عمرانی دورِ حکومت میں میڈیا محاذ پر اپنے آپ کو منوایا اور بالآخر اپنے شعبے کی انتہائی کڑی اور اعلیٰ مقام تک جا پہنچیں۔ ویل ڈن مریم اورنگزیب صاحبہ۔ مائی منسٹر انہوں نے وزارت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی مردانہ وار فیصلے کر کے خوش کر دیا ہے۔ میڈیا ڈویلپمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کو ”جہاں ہے جیسے ہے“ کی بنیادوں پر سپردخاک کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔پیکا آرڈیننس پر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کرنے کا اعلان انتہائی خوشگوار ہے، ہمارے میڈیا کارکنان کے لئے یہ اعلانات انتہائی اطمینان بخش ہی نہیں خوش کن بھی ہیں۔عمرانی دورِ حکومت میں میڈیا اور میڈیا کارکنان زیر عتاب رہے۔پی ٹی آئی حکومت اور پارٹی قائدین میڈیا کو مسلم لیگ (ن) کا حمایتی گردان کر انتقامی کارروائیوں پر یک سو رہے انہوں نے نہ صرف میڈیا مالکان کے ساتھ تعلقات بگاڑے، کئی ایک کو نیب کے ذریعے قید خانوں کا راستہ بھی دکھایا۔ پھر ایسی ہی کارروائیوں کی ایک گھناؤنی مثال محسن بیگ کو ایف آئی اے کے ذریعے زدوکوب کا نشانہ بنا کر حوالہ زنداں کرنا بھی ہے۔میڈیا کو کمزور کرنے کے لئے، ان کی آواز دبانے کے لئے ان کی معیشت تنگ کرنے کی منظم کاوشیں کیں۔ اس حوالے سے انہیں کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں، معیشت تنگ ہونے کے نتیجے میں بہت سی چھوٹی آر گنائزیشنز بشمول ریجنل اخبارات، جرائد، ایڈورٹائزنگ ایجنسیاں اور دیگر ایسے ہی ادارے فنا کی گھاٹ اتر گئے، سینکڑوں نہیں ہزاروں افراد بے روزگار ہوئے۔اشتہارات کے حوالے سے عمران حکومت

کی ظالمانہ پالیسی کے باعث بڑے اخبارات، چینلز اور صحافتی ادارے شدید مالی مشکلات کا شکار ہو گئے اور انہوں نے ورکرز اور صحافیوں کو چن چن کر فارغ کیا۔اس ہلے میں بھی ہزاروں لاکھوں بے روزگار ہو گئے۔حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی وہ تو میڈیا کو ٹائٹ اور مشکلات کا شکار کر کے خوش ہو رہے تھے۔حکومت،عمران خان کی حکومت، پی ٹی آئی کی حکومت کا زیادہ انحصار دشنام طرازی،بدکلامی اور بدانتظامی پر تھا اس لئے وہ کارکردگی کے حوالے سے بالکل ہی فارغ نظر آئے ویسے انہوں نے فی الحقیقت فارغ ہونے سے ایک سال قبل کارکردگی کا راگ الاپنا شروع کر دیا تھا اپنے پروپیگنڈہ بریگیڈ سوشل میڈیا اور وزارت اطلاعات میں قائم کردہ الیکٹرانک میڈیا سیل کے ذریعے ترقی کرتے ہوئے پاکستان کا پروپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا تھا، بلند آہنگ میں پروپیگنڈے کے اثرات مرتب نہیں ہو سکے، کیونکہ گلی گلی، محلہ محلہ،شہر شہر گاؤں گاؤں بجلی کی لوڈشیڈنگ بڑھتی ہوئی قیمتیں، اشیاء خورد ونوش کی گرانی، مہنگائی ہر جگہ نظر آ رہی تھی اس لئے عوام نے ان کے پروپیگنڈے پر توجہ نہیں دی۔ماضی کے حکمرانوں نے پارٹی کے میڈیا ونگز کو مضبوط کرتے ہوئے ابلاغ کے سرکاری ذرائع بشمول ریڈیو اور ٹیلی وژن کا ستیاناس کر کے رکھ دیا۔ ویسے ٹی وی ریڈیو کا کیا رونا پی ٹی آئی نے تو تمام سرکاری اداروں کا بیڑہ غرق کر کے ملک کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ریڈیو کی دورِ جدید میں جب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ترقی کرتا چلا جا رہا ہے، اپنی افادیت اور اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے

آج بھی ریڈیو، اپنی تکنیکی اور فنی برتری کے باعث ابلاغ عام کا موثر ترین ذریعہ ہے۔امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کو دیکھ لیں جہاں انٹرنیٹ،سوشل میڈیا، کیبل ٹی وی اور ڈیجیٹل میڈیا اپنی ترقی کی انتہاؤں کو چھوڑ رہا ہے،لیکن وہاں ریڈیو آج بھی اپنے پورے قد کاٹھ کے ساتھ کھڑا ہے۔امریکی صدر ہر مہینے بلاوقفہ اور تعطل ریڈیو پر اپنے خطاب کے ذریعے امریکی عوام سے مخاطب ہوتا ہے، برطانیہ کا بی بی سی ریڈیو، پوری دنیا میں ابلاغ/پروپیگنڈے کا انتہائی موثر ذریعہ ہے۔ جرمنی کا ڈی ڈبلیو اور اسی طرح ترقی یافتہ ممالک کے ریڈیو اقوام کی تربیت اور تہذیب کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے قومی مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے ایک موثر آلے کے طور پر کام کر رہے ہیں۔مودی سرکار بھی ایسا کر رہی ہے اور کامیابی سے ایسا کر رہی ہے۔بدقسمتی سے پی ٹی آئی حکومت نے جہاں میڈیا کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کر کے اسے کھڈے لائن لگانے کی شعوری کاوشیں کیں وہاں انہوں نے سرکاری ابلاغ کے موثر آلات ریڈیو ٹی وی کے ساتھ بھی ایسا ہی برا بھلا کیا ہے۔ریڈیو پاکستان جو قومی ادارہ ہے اسی کے ذریعے پاکستان کی آزادی کا اعلان ہوا۔اسی ریڈیو نے1965ء کی لڑائی کے دوران قوم کو متحد اور افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا رکھا۔پاکستان میں سبز انقلاب لانے میں ریڈیو نے بنیادی کردار ادا کیا۔پاکستان کے مختلف النسل و معاشرت صوبوں کو قومی دھارے میں رکھنے کے لئے بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور اب بھی ایسا کر رہا ہے۔پاکستان کی23 کروڑ آبادی میں 57فیصد سے زیادہ لوگ دیہاتوں میں رہتے ہیں جہاں کیبل

اور ڈش کی رسائی نہیں ہے،بجلی بھی فراوانی کے ساتھ دستیاب نہیں ہے پھر ٹیلی ویژن خریدنے کی استطاعت بھی کم ہے ایسے میں بغیر بجلی و تار کے اگر کوئی آلہ ابلاغ عوام کی دسترس میں ہوتا ہے تو وہ ریڈیو ہے۔ریڈیو کی پہنچ دور دراز، گھر گھر تک ہے پاکستان میں واحد ریڈیو ہی ایسا ذریعہ ابلاغ ہے جس کی پہنچ 98فیصد پاکستان تک ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے اس قومی ادارے کو بالکل ویسے ہی تباہ و برباد کرنے کی کاوشیں کیں جیسے قومی میڈیا اور ریاست کے دیگر اداروں کو تباہ و برباد کیا۔ اس وقت پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اس کے تنظیمی اور مالی معاملات دگر گوں ہیں، 950ملازمین کو فارغ کیا جا چکا ہے۔ لاہور سٹیشن کے25ملازمین اپنی ملازمت کے استقرار کے لئے مقدمہ لڑ رہے ہیں یہ ملازمین گزرے24سالوں سے روزانہ کی بنیادوں پر ریڈیو پاکستان کی آواز بلند کئے ہوئے ہیں۔اہم قومی ابلاغ ادارہ شدید مالی و انتظامی بحرانوں کا شکار ہے۔عمران خان کی حکومت یہاں کسی کارآمد شخص کو تعینات کرنے میں ناکام رہی ہے۔دو مرتبہ اشتہار دے کر ڈائریکٹر جنرل کی پوسٹ پر کسی پیشہ وارانہ اور اہل شخص کو تعینات نہیں کیا جا سکا ہے۔رواں سال کے آغاز میں ایسی ہی ایک کاوش پھر کی گئی۔درخواستیں آئیں شارٹ لسٹنگ ہوئی، امیدواروں کے ساتھ انٹرویو/بات چیت کا پہلا راؤنڈ منعقد کیا گیا اور پھر فائنل امیدواروں کی لسٹ وزیر اطلاعات کو بھجوا دی گئی۔اطلاعات ہیں کہ کیونکہ اس لسٹ میں وزیر اطلاعات(فواد چودھری) کا ”اپنا بندہ“ شارٹ لسٹ نہیں ہو سکا اس لئے انہوں نے معاملات کو حتمی شکل دینے میں دلچسپی نہیں لی اور اسی دوران حکومتی معاملات بگڑنے لگے اور پھر وہ رخصت ہو گئے۔ اب یہ فائل مریم اورنگزیب کے دفتر میں پڑی ہے اگر وہ اس حتمی لسٹ میں موجود امیدواران سے خود انٹرویو کر کے کسی اہل شخص کو ریڈیو پاکستان کا ڈائریکٹر جنرل تعینات کرنے کے فوری احکامات جاری کر دیں تو تباہ حالی کا شکار ایک قومی ادارہ مکمل تباہی سے بچ سکتا ہے اور اس ادارے کی کارکردگی شہباز شریف حکومت کے لئے ممدو مددگار بھی ثابت ہو گی۔عوام تک پیغام پہنچانے اور شہباز شریف کارکردگی کو پھیلانے میں یہ ادارہ یقینا اہم کردار ادا کرے گا۔ آزمائش شرط ہے۔