Categories
منتخب کالم

کیا شہباز شریف کی مشہور زمانہ پنجاب سپیڈ پورے پاکستان میں کام کر جائے گی ؟ بی بی سی کی خصوصی رپورٹ

لاہور (ویب ڈیسک) نامور صحافی زبیر اعظم بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔‘ان کو اپنے وزیروں کی دیانت پر تو اعتماد نہیں تھا مگر بیوروکریٹس پر بھی اندھا بھروسہ نہیں کرتے تھے لیکن یہ بات تھی کہ اُن کو سب کی خوبیوں اور خامیوں کا پتا تھا۔۔۔ مگر کانوں کے تھوڑے کچے تھے۔‘

یہ رائے ایک ایسے سینیئر بیوروکریٹ کی ہے جنھوں نے ماضی میں پنجاب میں شہباز شریف کے ساتھ کام کیا ہے۔اب مسلم لیگ نواز کے صدر میاں محمد شہباز شریف پاکستان کے 23ویں وزیر اعظم بن گئے ہیں اور اُن کی شہرت ایک سیاست دان سے زیادہ سخت گیر منتظم کی ہے جو پنجاب میں ان کے وزارت اعلیٰ کے مختلف ادوار میں قائم ہوئی۔سنہ 2008 سے 2018 تک مسلسل دو بار وزیر اعلیٰ پنجاب رہنے والے شہباز شریف کے دور اقتدار میں لاہور سمیت پنجاب میں ترقیاتی کاموں (جن میں میٹروز، اورنج ٹرین لائن جیسے بڑے منصوبے بھی شامل تھے) پر تیز رفتاری سے کام ہوا جس کے باعث ‘شہباز سپیڈ‘ کی اصطلاح عام ہوئی اور انھی پراجیکٹس کی بنیاد پر اُن کو بدعنوانی کے الزامات کی بنیاد پر بنائے گئے کیسز کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ دوسری جانب ان پر یہ تنقید بھی ہوتی رہی کہ انھوں نے پورے صوبے کی بجائے لاہور کو ہی توجہ اور ترقیاتی فنڈز کا مرکز بنائے رکھا۔ان الزامات اور کیسز کے باوجود شہباز شریف کی ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر شہرت اب بھی کافی حد تک قائم ہے۔ تاہم شہباز شریف کے ناقدین کے مطابق صوبے کی وزارت اعلیٰ اور وفاق میں وزارت عظمیٰ کے معاملات چلانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے ادورا میں شہباز شریف کے حوالے سے یہ عام رائے تھی کہ وہ اپنی صوبائی کابینہ کے وزرا سے زیادہ بیوروکریٹس پر انحصار کرتے تھے اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بطور سخت گیر منتظم وہ چاہتے تھے

کہ جو ‘کام شروع ہو وہ فوراً ہو جائے اور اس میں بیوروکریسی کی جانب سے کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔‘تاہم اب وفاق میں دفاع، امور خارجہ، ملکی معیشت، بجلی اور پانی جیسے بڑے مسائل کے ساتھ شہباز شریف کی کابینہ میں اپنی جماعت کے اراکین کے علاوہ (جو شہباز شریف کی طرز حکمرانی کو بخوبی جانتے ہیں) اتحادی جماعتوں کے ارکان بھی شامل ہیں جن کی ناراضی مول لینا اس لیے بھی اتنا آسان نہیں ہو گا کہ موجودہ مخلوط حکومت اتحادیوں کے بل بوتے پر کھڑی ہے اور حکومت کی مدت بھی واضح نہیں۔موجودہ صورتحال کی تفصیل میں جانے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ پنجاب میں شہباز شریف کا طرز حکمرانی کیا تھا؟شہباز شریف نے وزارت اعظمیٰ کا حلف اٹھانے کے اگلے ہی روز صبح سویرے اسلام آباد میٹرو کے منصوبے کا دورہ کیا۔ پنجاب میں یہ عادت (زیر تعمیر منصوبوں کے اچانک دورے) شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کا ایک خاصہ رہی ہے۔ایک سینیئر بیوروکریٹ، جنھوں نے شہباز شریف کے ساتھ پنجاب میں ماضی میں کام کیا ہے، نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ شہباز شریف بطور وزیر اعلیٰ کافی برق رفتاری سے کام کرنے کے عادی تھے۔’عموماً وہ صبح چھ بجے اٹھتے تھے، کافی کا کپ لے کر گاڑی میں بیٹھتے اور کسی نہ کسی پراجیکٹ کی بریفنگ یا دورے کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔‘’اکثر اوقات بیورکریٹس تنگ بھی آ جاتے تھے کیونکہ بہت زیادہ کام کرنا پڑتا تھا۔ بیس بیس گھنٹے تک دن میں کام کرنا

آسان نہیں ہوتا۔ لوگ تھک جاتے تھے لیکن شہباز شریف نہیں تھکتے تھے۔‘شہباز شریف سے متعلق یہ بات بھی عام ہے کہ وہ بہت کم وقت کے لیے سوتے ہیں۔ سینیئر بیوروکریٹ نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔ انھوں نے کہا کہ ’اُس وقت اور اب بھی سُنا ہے کہ شہباز شریف رات کے دو بجے سوئمنگ کرتے ہیں یعنی جب عام لوگ سو رہے ہوتے ہیں تو اس سے اندازہ لگا لیں۔‘اپنی اس عادت کا مظاہرہ شہباز شریف نے اُس وقت کیا جب ایوان وزیراعظم کا مکین بنتے ہی پہلا حکمنامہ سرکاری ملازمین کی ہفتے کے دن کی چھٹی کی کٹوتی اور آفس کے وقت میں اضافے کی صورت میں سامنے آیا۔ وہ بھی ماہ رمضان میں جب اکثر سرکاری دفاتر میں کام کی رفتار سست رہتی ہے۔شہباز شریف سے متعلق ایک رائے یہ بھی ہے کہ وہ کام کے معاملے میں کافی سخت گیر ہیں۔ سینیئر بیورو کریٹ نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہی وجہ تھی کہ زیادہ تر بیوروکریٹس اُن کے لیے دل سے کام نہیں کرتے تھے۔ ’لوگ کہتے تھے کہ تھوڑا آرام اور پیار سے بھی بات ہو سکتی ہے۔‘پنجاب میں سیکریٹریٹ اور بیوروکریسی کے معاملات پر طویل عرصے سے رپورٹنگ کرنے والے صحافی بابر ڈوگر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بطور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو تیز رفتاری سے کام کرنے کی عادت تھی جس کے لیے ایسی ہی بیوروکریسی درکار تھی۔’اُن کو جلد بازی ہوتی تھی کہ جلدی بریفنگ ہو اور پھر کام شروع ہو جائے اور پھر اس کے بعد

فالو اپ بھی لیا جائے۔ اُن کی خواہش ہوتی تھی کہ جو کام انھوں نے ایک دفعہ کہہ دیا وہ فوراً ہو جائے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔‘‘بطور وزیر اعلیٰ ان کے ادوار میں کابینہ کا کردار کم ہوتا تھا، وزرا اور کابینہ سے ضرورت کے مطابق فیصلوں کی منظوری تو لی جاتی تھی لیکن ان پر عمل درآمد شہباز شریف سیکریٹریز کے ذریعے براہ راست خود کرواتے تھے۔‘سینیئر بییوروکریٹ کا کہنا تھا کہ ‘یہ بات درست ہے کہ بطور وزیر اعلی شہباز شریف کابینہ کے وزرا سے زیادہ بیوروکریٹس پر کام کے لیے انحصار کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شہباز شریف کی ایک عادت تھی کہ وہ کسی پر بھی اعتماد نہیں کرتے تھے۔‘تو کیا شہباز شریف کو اپنی کابینہ یا وزرا کی صلاحیت پر اعتماد نہیں تھا؟ سینیئر بیورکریٹ نے جواب دیا کہ شہباز شریف کو ’وزرا کی دیانت پر بھروسہ نہیں تھا۔ لیکن وہ بیوروکریٹس پر بھی اندھا اعتماد نہیں کرتے تھے۔ وہ کانوں کے کچے تھے۔‘خواجہ سلمان رفیق اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ شہباز شریف بطور وزیر اعلی اپنی کابینہ کے وزرا پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔انھوں نے ماضی میں بطور مشیر صحت شہباز شریف کے ساتھ کام کیا اور بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’شہباز شریف کے ساتھ وہی وزیر چل سکے جو محنتی تھے، جن کو اپنے کام پر عبور تھا اور جو ان کے دیے گئے ٹارگٹس کو پورا کر سکتے تھے۔ لیکن اگر وزیر کو اپنے کام کا علم نہیں تو ظاہر ہے پھر بیوروکریسی سے ہی کام کروانا

پڑے گا۔‘خواجہ سلمان رفیق کے مطابق شہباز شریف کو ’اپنے سبجیکٹس پر اتنا عبور تھا کہ بیوروکریٹس کے لیے ان سے جھوٹ بولنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔‘’وہ وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔ ٹارگٹ سیٹ کر دیتے تھے، جو کبھی کبھار بظاہر ناممکن لگتے تھے اور پھر بار بار فالو اپ کرتے تھے۔ ان سے میرا اختلاف بھی ہوتا تھا تو وہ دلیل سے قائل کرتے تھے۔‘صحافی بابر ڈوگر کے مطابق شہباز شریف کی کامیابی کا ایک راز یہ بھی تھا کہ انھوں نے ایسے بیوروکریٹس کو اپنی ٹیم میں چُنا جو اُن کے کام کے طریقے کو سمجھتے تھے اور نتائج دے سکتے تھے۔’انھوں نے چند بیوروکریٹس کو چُنا اور اپنے کام کی رفتار کے حساب سے ان کو ٹرین کیا جن میں احد چیمہ، فواد حسن فواد، میجر اعظم سلیمان، کیپٹن اسد، نبیل اعوان، مومن علی آغا جیسے بیوروکریٹس شامل تھے۔ یہ شہباز شریف کی خاص ٹیم تھی جو اُن کی آنکھوں کے اشارے بھی سمجھتے تھے۔‘سینیئر بیوروکریٹ کے مطابق شہباز شریف نے تقریباً تمام اُن بیوروکریٹس، جو آج سینیئر لیول پر بیٹھے ہیں، کے ساتھ اُس وقت کام کیا جب وہ کافی جونیئر تھے۔بابر ڈوگر کے مطابق شہباز شریف کی وزرات اعلیٰ کے دوران پنجاب کے سیکریٹریٹ میں ایک اور متوازی اور بڑا سیکریٹریٹ بنا جہاں موجود سیکشن افسروں کا کام پراجیکٹس اور وزیر اعلیٰ کے احکامات کا روزانہ کی بنیاد پر فالو اپ کرنا ہوتا تھا۔’شہباز شریف نے اسی بیوروکریسی کی مدد سے اورنج لائن اور میٹرو جیسے پراجیکٹس کو مکمل کیا اور اسی لیے شہباز سپیڈ کی اصطلاح عام ہوئی۔

‘پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے دوران ایک طرف جہاں ترقیاتی منصوبے شہباز شریف کی وجہ شہرت بنے، تو وہیں ایک متنازع فیصلہ پنجاب میں کمپنیز کے قیام کا بھی تھا۔60 سے زیادہ ان کمپنیز میں بیوروکریٹس کو تعینات کیا گیا جن میں صاف پانی کمپنی، پنجاب پاور کمپنی سمیت دیگر کمپنیاں شامل تھیں۔صحافی بابر ڈوگر کے مطابق ان کمپنیز کے قیام کا بنیادی محرک شہباز شریف کی جلد بازی اور کابینہ کی بجائے بیوروکریٹس پر انحصار کرنا ہی تھا۔’جب شہباز شریف نے دیکھا کہ کابینہ ممبران کے تحت سرکاری محکموں میں مختلف قسم کے مسائل ہیں، سمریاں آگے نہیں بڑھتیں، ایک دفتر سے دوسرے دفتر گھومتی رہتی ہیں اور فیصلے نہیں ہو پاتے تو انھوں نے یہ حل نکالا کہ کمپنیاں بنا لیں جس کا بنیادی مقصد بیوروکریٹس کے ذریعے تیز رفتاری سے کام کرنا ہی تھا۔‘لیکن یہی کمپنیاں بعد ازاں اُن پر تنقید کی وجہ بھی بنیں۔ شہباز شریف پر یہ الزام بھی عائد ہوا کہ ان کمپنیز میں من پسند بیوروکریٹس کو زیادہ تنخواہوں اور مراعات پر تعینات کیا گیا۔2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار نے ایک کیس کی سماعت کے دوران سوال کیا تھا کہ انھوں نے کس بنیاد پر 25 لاکھ تک کی تنخواہوں پر سرکاری افسران کو ان کمپنیز میں تعینات کیا۔ چیف جسٹس نے شہباز شریف کے جواب کو غیر تسلی بخث قرار دیتے ہوئے یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود صاف پانی کمپنی عوام کو پانی مہیا کرنے میں ناکام رہی۔2019 میں

تحریک انصاف کی پنجاب حکومت نے 56 میں سے 35 کمپنیز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔سینیئر بیوروکریٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف کو ایک فائدہ یہ حاصل تھا کہ انھوں نے ایک طویل عرصے تک سرکاری سسٹم میں رہ کر کام کیا۔’اگر باقی لوگوں کے مقابلے میں دیکھیں تو شہباز شریف نے ایک ایم پی اے کی حیثیت سے سیاست کا آغاز کیا، پھر قومی اسمبلی، پھر پنجاب میں اپوزیشن لیڈر رہے اور پھر وزیر اعلی بنے۔ اس کی وجہ سے انھوں نے سسٹم کو اندر سے دیکھا اور تجربہ حاصل کیا۔‘’یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آپ کسی کو سیدھا وزیر اعلیٰ لگا دیں کہ کام کرتے ہوئے سیکھ لے گا جیسے گذشتہ حکومت کے دور میں مذاق ہوا۔ اگر آپ نظام کو، نظام چلانے والوں کو جانتے ہیں تو یقیناً آپ کے لیے کام کرنا اور کروانا دونوں آسان ہو جاتے ہیں۔‘سینیئر بیوروکریٹ کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کا پنجاب میں بیوروکریسی کے ساتھ طویل عرصے تک کام کرنے کا تجربہ یقیناً وفاق میں ان کے کام آئے گا۔صوبے کی وزارت اعلیٰ اور وفاق میں وزارت عظمیٰ میں بہت فرق ہے۔ صوبے کے معاملات اور وفاق کے اختیارات بھی بہت حد تک ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔وفاق میں بہت سی اہم وزارتیں اور بڑے مسائل ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک میں سیاسی و معاشی درجہ حرارت عروج پر ہے، حکومت اتحادیوں کے بل بوتے پر کھڑی ہے۔ایک سینیئر بیوروکریٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان میں

اب بھی کام کرنے کا وہی سٹیمنا ہے جو پہلے وقت میں تھا؟ کیا ان کی صحت ٹھیک ہے؟ سنا ہے کہ اب بھی وہ رات کے دو بجے سوئمنگ کرتے ہیں۔‘ان بیوروکریٹ نے کہا کہ ’شہباز شریف کے لیے اصل چیلنج یہ ہو گا کہ سیاسی حالات اور اتحادیوں کے ساتھ کس قسم کا ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہوتا ہے اور حکومت کتنا عرصہ چلتی ہے؟‘پنجاب میں بنائی گئی شہرت وفاق میں شہباز شریف کے کام آئے گی یا نہیں؟ موجودہ سیاسی حالات میں ایسا ہونا مشکل نظر آتا ہے۔صحافی اور مصنف زاہد حسین کے مطابق شہباز شریف کی بطور ایڈمنسٹریٹر اچھی شہرت اپنی جگہ لیکن وفاق کے معاملات صوبے سے مختلف ہوتے ہیں اور ’موجودہ صورت حال میں کمزور اکثریت پر بنی اتحادی حکومت کو چلانا کسی کے لیے بھی آسان نہیں۔‘بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جس طرح کے مسائل کا ملک کو سامنا ہے، ایسے میں سخت فیصلوں کی ضرورت ہے ’جو صرف وہی حکومت لے سکتی ہے جس کے پاس لمبا عرصہ اور پارلیمان میں اکثریت ہو۔‘’یہ ایک اتحادی حکومت ہے جس کے پاس وقت اور اکثریت دونوں ہی نہیں ہیں۔ گورننس کا معاملہ، معاشی مسائل اور مہنگائی کے ساتھ ملک میں بڑھتی ہوئی تقسیم کسی بھی حکومت کے لیے بڑے چیلنج ہیں لیکن خصوصا ایک اتحادی حکومت کے لیے جس کے پاس وقت بھی کم ہے ان کا حل نکالنا مشکل ہے۔‘زاہد حسین کہتے ہیں کہ ’وفاق پنجاب کے بغیر نہیں چلتا اور اس وقت پنجاب میں بھی بحران ہے جہاں دو ماہ سے حکومت ہی نہیں اور اگر حمزہ حکومت بنا بھی لیتے ہیں تو وہاں بھی امکانات ہیں کہ کمزور اکثریت کے باعث تحریک انصاف ممبران کی ممکنہ نا اہلی کی صورت میں باآّسانی حکومت گر سکتی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’اس وقت شہباز شریف کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ کسی طرح اگر معیشت کو بچا سکیں اور مہنگائی کو کم کر سکیں۔ لیکن ایسا کرنا بھی مشکل ہے کیوں کہ سب کو علم ہے کہ پٹرول کی قیمت حکومت کے بس میں نہیں۔ اس کو بڑھائیں تو سیاسی تنقید ہو گی، کم رکھیں گے تو معیشت کو نقصان ہو گا۔‘