اس میں کوئی شک نہیں امریکہ کی تابعداری سے انکار عمران حکومت کے خاتمے کی وجہ بنا ۔۔۔۔اوریا مقبول جان نے ثبوت اور دلائل پیش کر دیے

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان میں آجکل جس خط کا تذکرہ ہے اس خط میں امریکی دفتر خارجہ نے جیسی گفتگو لکھوائی تھی وہ کیسی ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ ’’سازش‘‘ کہیں یا ’’مداخلت‘‘ کوئی بھی اس خط کو عوام کو دکھانے کی جرأت نہیں کر رہا۔
بھارت پاکستان وار (1971ئ) کی دستاویزات کو 34 سال بعد 29 جون 2005ء کو منظرِ عام پر لایا گیا۔ یہ دستاویزات کئی سو صفحات پر مشتمل ہیں۔ ان میں امریکی بد زبانی دیکھنے کے لئے وہ گفتگو اہم ہے جو صدر نکسن اور وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے درمیان ہوئی۔ پانچ نومبر 1971ء کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی جب امریکی دورے پر گئی تو اس نے مشرقی پاکستان سے ہجرت کرنے والوں کے بارے میں عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جسے امریکیوں نے روس کی ایک سازش سمجھا۔ جب میٹنگ ختم ہوئی، وہ اپنے ہوٹل روانہ ہوئی تو اس کے بعد نکسن اور کسنجر کے درمیان جو گفتگو ہوئی اسے بھی ایک میمو کے طور پر ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا۔ کسنجر نے اپنے تاثرات میں صدر نکسن کو کہا. انڈین بہر طور ح رام ی ہیں۔ یہ وہاں لڑاائی شروع کرنے والے ہیں… اور یہ گاندھی ایک کُ تی ا ہے۔ ہم نے جو حاصل کرنا تھا کر لیا۔ اب یہ واپس جا کر لوگوں کو یہ نہیں بتا پائے گی کہ امریکیوں نے مجھے گھاس نہیں ڈالی بلکہ یہ اس دورے سے نااُمیدی کے بعد یقیناً لڑائی چھیڑ دے گی‘‘۔ اس گفتگو کی بنیاد کسنجر کے پاس سی آئی اے کی وہ خفیہ رپورٹ تھی جس کے مطابق بھارت پاکستان کو توڑنا چاہتا تھا اور ساتھ ہی پاکستانی فوج کو مکمل طور پر تباہ کرنا چاہتا تھا۔ جبکہ امریکی مغربی پاکستان کو بچانا اور فوج کو قائم رکھنا چاہتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے یحییٰ خان کو چند ماہ کی مہلت دی تھی۔ اس کا انکشاف پاکستانی سفیر آغا بلالی، ہنری کسنجر اور صدر کے مشیر ہیرالڈ سینڈرس کی 10 مئی 1971ء کی گفتگو سے ہوتا ہے جس کے بعد تین جون 1971ء کو کسنجر نے پاکستان میں اپنے سفیر کو فون کیا اور کہا “President has felt that we should give President Yahya a few months to see what he can work out.” ’’صدر محسوس کرتا ہے کہ ہمیں یحییٰ خان کو چند مہینے دینے چاہئیں تاکہ پتہ چلے وہ کیا کچھ کر سکتا ہے‘‘۔ یحییٰ خان کو چند ماہ دیئے گئے، بھارتیوں اور اندرا گاندھی کو مغلطات نکالی گئیں، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اندرا گاندھی کو وارننگ دے کر مغربی پاکستان پراٹیک رکوایا گیا، اور پھر یحییٰ خان کو چند جونیئر آفیسروں کے ذریعے رخصت کروانے کے بعد، بھٹو کو امریکہ سے واپس روانہ کیا گیا تاکہ وہ اقتدار سنبھالے۔ یہ سب کچھ ان دستاویزات کے آتش فشاں میں موجود ہے۔ اس آتش فشاں کو دیکھنے کے بعد امریکی بدزبانی کا بھی اندازہ ہوتا ہے حکمرانوں کو بدلنے کے انداز کا بھی۔ اس تناظر میں سوچئے کہ عمران خان جس خط کو لہراتا ہے، وہ کیسا ہو گا۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ حکمران جو اب اقتدار میں لائے گئے، وہ گذشتہ تیس سال سے ایسی گفتگو سننے کے عادی ہو چکے تھے۔ جبکہ عمران خان اس کا عادی نہیں تھا، بھڑک اُٹھتا تھا، اس لئے تبدیل کر دیا گیا۔