Categories
بڑی خبر

میاں نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان لندن میں ہونیوالی ملاقات میں کیا بات ہوئی؟ اندرونی کہانی سامنے آگئی

لاہرو: (ویب ڈیسک) مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اور چیئرمن پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے درمیان جمعرات کو لندن میں ہونے والی ملاقات پاکستان کی سیاسی صورتحال کے تناظر میں اہم سمجھی جا رہی ہے کیونکہ دونوں جماعتیں، جو ایک وقت تک حریف سمجھتی جاتی تھیں، اب حکومتی اتحاد میں داخل ہوچکی ہیں۔

اس ملاقات میں کیا طے پایا ہے، اس حوالے سے بعض رہنماؤں نے بی بی سی کو بتایا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان عہدوں کی تقسیم وغیرہ پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ مقامی ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں کے درمیان ملک کے نئے صدر مملکت، چیئرمین سینیٹ اور گورنر پنجاب جیسے عہدوں سے متعلق مشاورت ہوگی۔ تاہم دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے بتایا کہ اس ملاقات کا مقصد دونوں پارٹیوں کے درمیان طویل مدت کے لیے رشتے مضبوط کرنا اور ان آئینی و قانونی معاملات پر قانون سازی پر اتفاق کرنا تھا جو ’چارٹر آف ڈیموکریسی‘ یعنی میثاق جمہوریت میں رہ گئے تھے۔بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کی ٹیم کی میاں نواز شریف اور ان کی ٹیم سے یہ ایک طویل ملاقات تھی۔ اس ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے میاں نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے متعدد بار ’چارٹر آف ڈیموکریسی‘ کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہ ایک بار پھر اس تاریخ کو دہرانا چاہتے ہیں۔ خیال رہے کہ سال 2006 کے دوران بلاول بھٹو کی والدہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت کے معاہدے میں دونوں جماعتوں نے بعض آئینی ترامیم، سیاسی نظام میں فوج کی حیثیت، نیشنل سکیورٹی کونسل، احتساب اور عام انتخابات کے بارے میں اتفاق رائے قائم کی تھی۔اب اس ملاقات کے بعد دونوں پارٹیوں نے بریفنگ سے قبل صحافیوں پر یہ شرط لاگو کی کہ آج کوئی سوالات نہیں لیے جائیں گے، اس لیے بریفنگ کے بعد سوالات نہیں ہوئے۔

مگر ملاقات میں موجود ایک رہنما نے بی بی سی کو بتایا کہ چارٹر آف ڈیموکریسی کے مذاکرات اور پھر اسے حتمی شکل دینے میں لگ بھگ چار برس لگ گئے تھے۔ ان کے مطابق اس میٹنگ کا مقصد بھی پاکستان میں جوڈیشل ریفارمز اور دیگر آئینی اصلاحات پر اتفاق رائے کے ساتھ قانون سازی کرنا تھا۔ میٹنگ میں شریک ایک اور رہنما کے مطابق دونوں جماعتوں کے سربراہان نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ملک اس وقت معاشی، سیاسی اور خارجی تعلقات کے حوالے سے بہت خراب حالات سے گزر رہا ہے اور کوئی ایک جماعت اس کو ان مسائل سے نہیں نکال سکتی، اس لیے سب کو ساتھ چلنا ہوگا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بلاول بھٹو زرداری پاکستان واپس جا کر وزارت کا حلف لے لیں گے۔ اس سے قبل میاں نواز شریف نے بریفنگ میں کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے ملک کی معیشت تباہ کر دی تھی اور غریب کھانے کو بھی ترس گئے تھے۔ ان کے مطابق ملک کو ایسے مقام پر لا کھڑا کیا گیا تھا جہاں سے اسے کوئی ایک جماعت نہیں نکال سکتی تھی اور سب کو ساتھ چلنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ اب نئی قیادت ملک کو آگے لے کر چلے گی۔ میاں نواز شریف کا اس مرتبہ کا بیانیہ ماضی کے مقابلے میں قدرے مختلف تھا۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض پر کڑی تنقید کرتے رہے ہیں۔ لیکن جمعرات کی بریفنگ میں انھوں نے فوج کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔اس ملاقات میں بلاول بھٹو زرداری نے میاں نواز شریف کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ’نئی قیادت صدر زرداری اور میاں صاحب کی گائیڈنس میں ملک کی ترقی کے لیے کام کرے گی۔‘ بلاول نے مزید کہا کہ ’جیسے چارٹرف آف ڈیموکریسی میں اور اٹھارویں ترمیم میں ہماری پارٹیوں نے مل کر کام کیا تھا، اب بھی ہم ایسا تاریخی کام کریں گے۔‘ پریس بریفنگ کے دوران نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے اندر اس طرح کا ماحول میں نے 70 سال میں نہیں دیکھا جو عمران خان اور اس کی سیاست نے پیدا کیا ہے ملک میں ہر بات پر یہ آئین و قانون سے ٹکر لے رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم نے پاکستان اس لیے نہیں بنایا تھا کہ اس طرح کا حشر کردیا جائے۔ جو کچھ ڈیمج ہوچکا ہے اسے ہم نے ٹھیک کرنا ہے اور یہ سب کی متحدہ اور مشترکہ کوشش کے بغیر نہیں ہوسکتا۔‘ ’موصوف کہتے ہیں مجھے سازش کر کے نکالا گیا ۔کیا تم نے کوئی ایٹمی دھماکہ کیا تھا؟ تم نے تو ویسے ہی پاکستان کو تباہ کر دیا۔‘ اسی بریفنگ کے دوران بلاول نے کہا کہ ’ہم نے ایک ایسے وزیر اعظم کو جمہوری طریقے سے نکالا جو غیر جمہوری طریقے سے اقتدار پر قابض ہوا تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے عدالت یا کسی دوسرے ادارے کو اس کام کے لیے استعمال نہیں کیا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ تمام جمہوری جماعتیں پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور اداروں کی منتقلی دیکھنا چاہتی ہیں۔ ’ماضی میں عدلیہ، پارلیمان، اسٹیبلشمنٹ متنازع ہوئے۔ ہم چاہتے ہیں یہ آئینی کردار ادا کر کے آگے بڑھیں۔ یہ صرف تب ممکن ہے جب سب مل کر کام کریں۔‘’آصف علی زرداری کو صدر بنانے کا کوئی مطالبہ نہیں‘بعد ازاں جب بی بی سی نے مسلم لیگ کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے پوچھا کہ کیا بلاول بھٹو نے سابق صدر آصف علی زرداری کو صدر بنانے کا مطالبہ رکھا ہے، تو اسحاق ڈار نے کہا کہ ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا۔ ان کے مطابق اگر یہ کسی کی خواہش ہو بھی، تب بھی یہ ابھی ممکن نہیں کیونکہ موجودہ صدر کو ہٹانے کے لیے اِمپیچ (مواخذہ) کرنا ہوگا جس کے لیے دونوں ایوانوں کی اکثریت کا ووٹ چاہیے جو اتحادی جماعتوں کے پاس نہیں۔ ’صدر عارف علوی کو ہٹانے کے لیے 298 ووٹ درکار ہیں جو فی الحال ممکن نہیں۔‘ اسحاق ڈار نے صدر علوی پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ مہذب راستہ تو یہ ہے کہ اگر ان کو عمران خان کے ساتھ اتنی لائلٹی (وفاداری) ہے تو اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ ’انھوں نے پہلے وزیر اعظم کا حلف نہ لے کر اور بعد میں وزرا کا حلف نہ لے کر عہدے کی توہین کی ہے۔‘