“کوئی رہ تو نہیں گیا جو میرے خلاف نہ ہو”!!! وزیرا عظم ہاؤس میں اس رات کیا کچھ ہوتا رہا ؟؟ اندر کی تہلکہ خیز کہانی منظر عام پر

لاہور: (ویب ڈیسک) فضل حسین اعوان اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ” “کوئی رہ تو نہیں گیا جو میرے خلاف نہ ہو”۔ اس جملے میں وہی کاٹ، گہرائی،گیرائی، درد اور تاسف ہے جو جولیس سیزر کے تاریخی فقرےYou too Brotusمیں تھا۔”کوئی رہ تو نہیں گیا”۔ یہ الفاظ وزیر اعظم عمران خان نے وزیرا عظم ہاؤس میں صحافیوں سے ملاقات کے دوران ادا کئے۔
یہ نو اپریل(سات رمضان المبارک) کی نصف شب تھی۔ عمران خان کی حکومت کا سفینہ ڈوب رہا تھا۔ قومی اسمبلی میں صبح سے 16جماعتیں عدم اعتماد پرووٹنگ کیلئے پیچ وتاب کھارہی تھیں۔ سپریم کورٹ کے5رکنی لارجر بنچ کے حکم کے مطابق نو اپریل کو اجلاس طلب کر کے عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی۔ گھڑیوں کی سوئیاں رات کے بارہ بجے کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ ان کی رفتار وہی تھی جو ہمیشہ ہوتی ہے مگر اس وقت کی حکومت کو یہ سوئیاں برق رفتاری چلتی لگ رہی تھیں جبکہ اپوزیشن اتحاد کیلئے ہر سیکنڈ صدیوں پر بھاری تھا۔ یہ وہ رات تھی جب افواہوں کا بازار گرم تھا۔کچھ ٹی وی چینلزsuggestive stories چلا رہے تھے۔ کچھ خواہش کو خبر بنا رہے تھے۔ یہ تو ہوناہی تھا جب ریڈ زون سیل کر دیا گیا۔فوجی گاڑیاں گشت کرنے لگیں۔ایوانِ زیریں کے سامنے پرزنربس آگئی۔ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو وزیر اعظم کی طرف سے تبدیل کرنے کی خبریں اُڑرہی تھیں۔ کوئی مارشل لاء کی قیاس آرائی کر رہا تھا۔عمران خان اس وقت وزیر اعظم ہاؤس سے معمول کے مطابق ہیلی کاپٹر میں بنی گالہ جانے کی تیاری کر رہے تھے مگر یہ حالات غیر معمولی تھے۔ ان کو بتایا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کھل گئی ہے اور سپریم کورٹ کا وہ بینچ کورٹ نمبر 1میں پہنچ گیا ہے جس نے ووٹنگ کرانے کا حکم دیا تھا۔اسی موقع پر عمران خان نے صحافیوں سے پوچھا تھا۔”کوئی رہ تو نہیں گیا جو میرے خلاف نہ ہو”۔ نو اور دس اپریل کی درمیانی رات عمران خان کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔
وزیر اعظم نے ایک روز قبل جمعہ 8اپریل کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ وہ اتوار کی رات سڑکوں پر نکلیں۔ عشاء کے بعد لوگ بڑی تعداد میں نکلے۔ یہ بغیر قیادت کے کراؤڈ تھا جوپُر امن رہا۔ عمران خان کی طرف سے 13اپریل کو پشاور اور16کو کراچی میں جلسہ کیا گیا۔ ان جلسوں میں عمران خان سمیت پارٹی رہنماؤں نے پاک فوج اور عدلیہ کے خلاف ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا۔ عمران خان نے پشاور میں کم کراچی میں زیادہ زور سے سپریم کورٹ کے ججز سے بڑے احترام کے ساتھ یہ پوچھا کہ آخر میں نے کیا جرم کیا تھا کہ رات کی تاریکی میں عدالت کھل گئی،اس پر انہیں زندگی بھر افسوس رہے گا۔ عمران خان کی طرف سے تو عدلیہ اور پاک فوج کے خلاف کوئی بات نہیں کی گئی یہ ان کے ظرف کی عکاسی ہے۔ ورنہ تو ماضی قریب میں ججوں اور جرنیلوں کو جلسوں میں ان کا نام لے کر مطعون کیا جاتا تھا۔ عمران خان اور رہنماؤں کی طرف سے محتاط رویہ اختیارکیاجارہاہے جبکہ کچھ عام کارکن اور حامی بے لگام ہیں،سوشل میڈیا پر جو منہ میں آتا ہے کہہ رہے ہیں۔ کراچی کا جلسہ پاکستان کے بڑے شہروں کے علاوہ کئی ممالک میں بھی دیکھا گیا۔ایک ہی روز شہر شہر اجتماعات کاعمران خان نے نیا رجحان متعارف کرایا ہے۔ پاکستان میں بلاشبہ اس رات”لکھوکھا“ لوگ نکلے تھے۔ بیرون ممالک سمیت چوکوں چوراہوں میں نکلنے والوں کی تعداد10ملین تک ہو گی۔ہوسکتا ہے حکومتی سولہ پارٹیاں اس سے بڑا اجتماع کرلیں۔انہیں ٹرائی ضرور کرنی چاہئے۔عمران خان کی طرف سے اداروں کے خلاف ابھی تک تو کوئی بات نہیں کی گئی۔
عدلیہ سے انہوں نے جو سوال کیا تھا اس کا جواب سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران برہمی سے دیا گیا۔ بینچ کے سربراہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا۔ ”یہ 24گھنٹے کام کرنے والی عدالت ہے کسی کو انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں۔کلچر بن گیا ہے حق میں فیصلہ ہو تو ٹھیک ورنہ انصاف تارتار ہوگیا“۔ پاکستان میں اتنی بڑی تبدیلی کے پیچھے عمران خان کے مطابق بیرونی ہاتھ تھا۔ایسی تبدیلیاں بیرونی قوتیں اندر کے لوگوں کو ساتھ ملا کرہی کرتی ہیں۔ عمران خان کی کال پر لوگ جس طرح نکلے ہیں وہ کئی حلقوں اور اداروں کے لیے حیران کن ہونے کے ساتھ پریشان کن بھی ہے۔پاک فوج کی طرف بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔پاکستان میں بڑے سیاسی فیصلے پاک فوج کے غیر متعلق ہونے سے نہیں ہو سکتے۔لیکن بڑے فیصلوں میں پوری فوج کا نہیں صرف چند ایک اعلیٰ ترین اختیارات کے حامل افسران کاکردار ہو تا ہے۔ عمران خان کی حمایت میں لوگوں کا اتنی تعداد میں نکلنا ان میں پائی جانیوالی بے چینی کو ظاہر کرتا ہے۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاک فوج ایک منظم ترین ادارہ ہے جس میں کسی بھی قسم کا کبھی منفی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ آرمی چیف نے بہت اچھا کیا کہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس بلا کر پاک فوج کے اتحاد اور اعتماد میں اضافہ کیا۔ جنرل باجوہ صاحب نے لاہور میں ریٹائرڈ فوجی افسران کے ساتھ ملاقات کی۔ اس میں جو کچھ کہا اس کے مندرجات سامنے آچکے ہیں۔جنرل صاحب کی اس گفتگو کے بعد اتفاقاً یا سوچ سمجھ کرعمران خان نے ایک تو چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر سلطان کے بارے میں کہا کہ یہ اسٹبلیشمینٹ کی چوائس تھے۔ دوسرے انہوں نے قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس کو غلطی قرار دیتے ہوئے کہاکہ وہ اس کے حق میں نہیں تھے۔قاضی فائز عیسیٰ اگلے چیف جسٹس ہیں۔امکان تھا کہ پی ٹی آئی ان کے خلاف محاذ کھڑا کردیتی مگراب صورتحال تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ عمران کی طرف سے یہ باتیں شاید رد عمل میں کی گئی ہیں۔ جنرل صاحب سات لاکھ فوج کے سربراہ ہیں۔ بقول فوجی ترجمان آرمی چیف جدھر دیکھتا ہے پوری فوج اُدھر دیکھتی ہے۔محب وطن پاکستانی بھی اسی اصول کو فالو کرتے ہیں۔ ادارے عمران خان کھینچ کر اپنے سامنے کھڑا نہ کریں۔ یہی ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہے۔ 37 رُکنی کابینہ بالآخر نو دن بعد تشکیل پاگئی۔ڈان لیک ایکسپرٹ طارق فاطمی بھی معاون بن گئے۔وزیر اعظم سمیت کابینہ کے تقریباً آدھے سے زیادہ (24) ارکان کرپشن کیسز میں ضمانتوں پر ہیں۔ چلتے ہیں دبے پاؤں کہ کوئی جاگ نہ جائے ۔۔۔ غلامی کے اسیروں کی یہی خاص ادا ہے۔۔۔ ہوتی نہیں جو قوم حق بات پہ یکجاء۔۔۔۔ اس قوم کا حاکم ہی بس اس کی سزا ہے۔۔۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔