شہباز حکومت دباؤ میں!!! اتحادی کب تک حکومت کو سہارا دیں گے ؟ کیا اسمبلیاں مدت پوری کر پائیں گی؟؟ نیا پینڈورا باکس کھل گیا

لاہور: (ویب ڈیسک) نسیم شاہد اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ” میں سوچ رہا ہوں پاکستان میں پچھلی حکومت نہ ہو تو اگلی حکومت کا دھندہ کیسے چلے یہاں کونسی حکومت آئی ہے جس نے یہ نہیں کہا کہ پچھلی حکومت معیشت کا بیڑہ غرق کر گئی ہے۔ عمران خان کہتے تھے مسلم لیگ ن نے خزانے میں کچھ نہیں چھوڑا اور اب یہ اتحادی حکومت راگ الاپ رہی ہے کہ خالی خزانہ منہ چڑا رہا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے تو یہ تک کہہ دیا ہے وہ کرنا بہت کچھ چاہتے تھے مگر جیب خالی ہے کیا کریں۔ وزیر خزانہ ایک نئی ترکیب سامنے لائے ہیں، انہوں نے کہا ہے عمران خان ہمارے لئے بارودی سرنگ بچھا گئے پھر کہا نہیں ایٹم بم لگا گئے ہیں۔ آصفہ بھٹو کا بیان بھی نظر سے گزرا کہ پچھلی حکومت نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، پیچھے چلے جائیں تو نوازشریف پیپلزپارٹی کی حکومت کے بارے میں یہی کہتے تھے اور پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن کو یہی طعنے دیتی تھی۔ قومی خزانے کی ہمت ہے کہ بار بار خالی ہونے کے باوجود پھر بھر جاتا ہے۔ اور یہ کام بھی عوام کی خون پسینے والی کمائی سے آخری قطرہ نچوڑ کر کیا جاتا رہا ہے۔جب تک کسی کی حکومت رہتی ہے وہ یہی دعویٰ کرتا ہے کہ اس جیسی کارکردگی ماضی میں کسی حکومت کی رہی نہیں۔ بس دودھ اور شہد کی نہریں نہیں دکھا سکتا باقی سب کچھ بیان کر دیتا ہے۔ یہی پیارے عمران خان تھے جو آئے روز کہتے تھے ہم نے ملکی معیشت کو پٹڑی پر ڈال دیا ہے۔ خوشحالی کا دور دورہ ہے، تجارتی خسارہ کم کر دیا ہے، برآمدات بڑھا دی ہیں، قرضے اتار دیئے ہیں، کسانوں کو خوشحالی سے ہمکنار کیا ہے، عام آدمی کی قوت خرید بڑھ گئی ہے، گاڑیوں کی ریل پیل ہے، موٹر سائیکلیں ریکارڈ بک رہی ہیں غرض ہر طرف ہرا ہی ہرا دکھاتے رہے، اب کل میں نے وزیر اعظم شہباز شریف کی باتیں سنیں، مفتاح اسماعیل کے اعداد و شمار دیکھے تو یوں لگا جیسے عمران خان تو یہاں بیٹھ کر ملک سے کھلواڑ کرتے رہے، پھر یہ خیال آیا۔ اب کیا یہ مختصر وقت کے لئے آنے والی حکومت اپنا عرصہ یہی رونا روتے گزار دے گی کہ پچھلی حکومت نے ملک تباہ کر دیا، قومی خزانے میں کچھ نہیں چھوڑا، تب وزیر اعظم کے اس جملے پر نظر پڑی، خزانہ جس حالت میں ملا، وہ عوامی مشکلات کے خاتمے کے لئے کافی نہیں تاہم محنت سے حالات بدلیں گے، چلو کوئی حوصلہ دلانے والی بات تو کی۔ وگرنہ یہاں تو ہر حکومتی وزیر یہی دہائی دے رہا ہے تبدیلی والوں نے تباہی کی داستان ہی چھوڑی ہے۔
موجودہ حکومت کو سب سے بڑا دکھ اس بات کا ہے کہ عمران خان جون تک پٹرول کی قیمتیں کیوں منجمد کر گئے ہیں اس کمی وجہ سے قومی خزانے کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔ تو بھائی عمران خان کو جون تک نہ نکالتے، بیٹھا رہنے دیتے، جو کچھ ہوتا ان کے دور میں ہوتا اب عوام کو دی گئی ایک سہولت کیسے واپس لو گے۔ یہ تو سیاسی طور پر حکومت کے لئے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔ عوام تو پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں زچ ہو چکے ہیں۔ بجلی کی قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں، پٹرول بھی اگر 2 سو روپے لٹر تک چلا گیا تو وہ عمران خان کو یاد کر کے کر کے آہیں بھریں گے، ابھی تو وہ امریکی سازش کے تحت انہیں نکالنے کی تھیوری پر یقین کئے بیٹھے ہیں پھر یہ سوچیں گے کہ چوروں اور لٹیروں کی حکومت واپس آ گئی ہے جو ان سے دی گئی مراعات بھی چھین رہی ہے۔ بس یہی مشکل ہے جس سے جان چھڑانے کی حکومت کو کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ اب لگتا یہی ہے کہ آئی ایم ایف کا کندھا استعمال کر کے یہ کلہاڑا چلایا جائے گا۔ مگر اس کے جو سیاسی اثرات ہوں گے وہ سراسر عمران خان کے حق میں جائیں گے۔ ان کے جلسوں میں عوام کی تعداد مزید بڑھ جائے گی اور عوامی احتجاج مزید نکھر جائے گا۔ عمران خان کو تو جانے کی جلدی نہیں تھی، جلدی تو اتحادی جماعتوں کو حکومت میں آنے کی تھی۔ عمران خان اگر اپنے پانچ سال پورے کر لیتے تو ان کے پاس اپنے دفاع کے لئے سازش کا بیانیہ بھی نہیں ہونا تھا۔ پھر جتنا مرضی ان کے خلاف خراب معیشت کی مہم چلائی جاتی، اب تو یہ مہم بے معنی ہو گئی ہے۔ عوام اس سازشی تھیوری کے اس قدر قائل ہوئے ہیں کہ ہر طرف عمران خان کے نعرے لگ رہے ہیں، پچھلی حکومت کی مشہور زمانہ تکنیک شاید یہاں استعمال نہ ہو سکے۔ اب تو لوگ یہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ جو مہنگائی مارچ کر کے احتجاج کرتے تھے، اب حکومت میں آ کر مہنگائی کا رونا کیوں رو رہے ہیں کہاں ہے وہ جادو کی چھڑی جسے استعمال کر کے مہنگائی کم کی جا سکتی ہے۔ اگر مہنگائی کم نہیں کی جا سکتی تو پھر اس کی وجہ سے ایک منتخب حکومت کو وقت سے پہلے رخصت کیوں کیا گیا۔
کل عثمان بزدار نے ٹویٹ کیا کہ پنجاب حکومت نے رمضان پیکج کے حوالے سے عوام کو جو ریلیف دیا تھا، شہباز شریف اسی کو اپنا کریڈٹ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ آٹے اور چینی پر سبسڈی تو پہلے ہی دی جا چکی ہے اب اس کی تشہیر کرنے کا فائدہ اس سے پہلے پی ٹی آئی والے وزیر اعظم شہباز شریف کے ان دو منصوبوں کے دورے پر بھی اعتراض کر چکے ہیں، جو انہوں نے دیا میر بھاشا ڈیم اور پشاور موڑ تا اسلام آباد میٹرو بس کے سلسلے میں کئے، یہ دونوں منصوبے بھی پچھلی حکومت نے شروع کئے اور میٹرو بس والے منصوبے کی تو افتتاحی تاریخ بھی دیدی گئی تھی۔ ان باتوں سے شہباز سپیڈ کیسے بن سکتی ہے۔ کوئی نئے منصوبے لانے ہوں گے اور کوئی نئی طرز حکمرانی متعارف کرانی پڑے گی، وگرنہ مکھی پر مکھی مارنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے عمران خان کے خلاف ان کے دور میں ہونے والی بد عنوانیوں کے سکینڈلز سامنے لا کر عوام کو متاثر کرنے کی کوشش کی جائے، مریم نوازشریف اس طرف خصوصی توجہ دیئے ہوئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے عمران خان کے خلاف صرف رشوت کے ضمن میں مبینہ طور پر 6 ارب روپے کا سکینڈل سامنے آنے والا ہے۔ ماضی کا تجربہ بتا چکا ہے صرف کرپشن کے الزامات لگا کر کسی کی سیاست کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ نوازشریف کے خلاف عمران خان کیا کچھ نہیں کہتے رہے ان کی سیاست ختم نہیں ہوئی اور آج بھی مسلم لیگ ن پر سکہ نوازشریف کا ہی چل رہا ہے۔ سیاست ختم کرنے کے لئے کچھ کر کے دکھانا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے ہر حکومت ناکام ہی رہتی ہے۔ کیونکہ اس کا بیانیہ پچھلی حکومت کی برائیاں بیان کرنا ہوتا ہے، اب دیکھتے ہیں اتحادی جماعتوں کو شہباز شریف کب تک اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں اور یہ حکومت اس دباؤ کا مقابلہ کرنے میں کس حد تک کامیاب رہتی ہے جو عمران خان نے حکومت سے نکلنے کے بعد مسلسل ڈال رکھا ہے۔