فوج کے ساتھ آپ کے تعلقات کیسے ہونے چاہیں ؟ سلیم صافی کی وزیراعظم شہباز شریف کے لیےزبردست تجاویز

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار سلیم صافی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف صاحب ۔۔۔۔۔ آپ کی جماعت کا فوج کے ساتھ ماضی کچھ اچھا نہیں رہا۔ درمیان میں دونوں طرف سے غلطیوں کی وجہ سے بہت تلخیاں جنم لے چکی ہیں۔ اپنی جماعت کو بطور جماعت اور فوج
کو بطور ادارہ ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے آپ کو بہت محنت کرنی ہوگی، نہیں تو کسی بھی وقت کوئی چنگاری، تلخیوں کی آگ بھڑکا سکتی ہے۔ میرا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ آپ ابتدائی دنوں کے عمران خان بن جائیں اور ایک ہائبرڈ نظام سامنے لائیں لیکن فوج کو اس کا جائز مقام اور عزت ضروردیں اور چند افراد کی غلطیوں کی بنیاد پر پوری فوج کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ راتوں رات پاکستان کو ترکی بنانے کا خیال اپنے بھائی اور ساتھیوں کے دلوں سے نکال دیں۔ ماضی کو بھول جائیں اور جنرل فیض حمید سمیت ہر کسی سے انتقام لینے کی سوچ دل سے نکال دیں۔ فتح کے بعد مخالفین کو معاف کرنا اللہ کے نبی ﷺ کی سنت بھی ہے اور حکمت کا تقاضا بھی۔: مجھ سے زیادہ شاید ہی کسی کو احساس ہو کہ پی ٹی آئی کا دور بدتمیزی اور انتقام پر مبنی بدترین دور تھا۔ عمران خان جتنا بھی مذہب کی آڑ لے لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہ بنیادی طور پر فاشسٹ اور ہٹلر کے پیروکار تھے۔ آپ اور آپ کے خاندان نے ان کے دور میں جو کچھ برداشت کیا، وہ بیان کرتے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن آپ اگرکامیاب حکمران بننا چاہتے ہیں تو عمران خان سمیت سب کے بارے میں انتقام کا خیال دل سے نکال دیں۔اب آپ پورے پاکستان کے وزیراعظم ہیں نہ کہ صرف مسلم لیگ (ن) یا اتحادیوں کے۔ پی ٹی آئی کے ووٹر کا بھی آپ پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ لیگی ورکروں کا۔ ہاں جن سیاسی رہنمائوں یا بیوروکریٹس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، اس کی تلافی ضرور کیجئے اور جنہوں نے کھلی قانون شکنی کی ہے، ان کے خلاف کارروائی بھی ضرور کیجئے لیکن اس سے رتی
بھر انتقام کی بو نہیں آنی چاہئے۔کوشش کیجئے کہ احتساب کا کوئی ایسا نظام بن جائے جو سب کا احاطہ کرتا ہو اور سب کے لیے قابلِ قبول ہو۔: مسنگ پرسنز کا ایشو ایک سنگین اور دردناک مسئلہ ہے۔ اس مسئلے پر خصوصی توجہ دیجئے۔ فوجی قیادت اور اداروں سے مل کر اس کے لیے کوئی میکانزم تشکیل دیجیے۔: گزشتہ چند سال میں ریاستی اداروں کا وقار بری طرح مجروح ہوچکاہے۔ ہر ریاستی ادارے کو ٹریک پر لانے اور آئینی رول تک محدود کرنے کی کوشش کیجئے تاہم اس عمل میں متعلقہ اداروں کی مشاورت ضرور شامل ہونی چاہئے۔: آخری گزارش میرے اپنے پیشے یعنی میڈیا سے متعلق ہے۔ گزشتہ برسوں میں میڈیا کو تقسیم بھی کیا گیا اور اس کی وقعت بھی خاک میں ملا دی گئی۔آپ مہربانی کریں اور میڈیا کو ماضی کی حکومتوں کی طرح اپنا ٹول بنانے کی کوشش نہ کریں۔ جن میڈیا چینلز، اینکرز یا لکھاریوں نے آپ کے ساتھ ناانصافی کی ہے، جواب میں آپ ان کو انتقام کا نشانہ نہ بنائیں۔ ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں اور سب میڈیا آرگنائزیشن اور میڈیا پرسنز کے ساتھ یکساں برتائو کریں۔میڈیا کو کنٹرول کرنے کی بجائے میڈیا آرگنائزیشنز کی مشاورت سے فقط اسے ریگولیٹ کریں تاکہ فیک نیوز کے پھیلائو اور اس کے بطور ٹول استعمال ہونے کا سلسلہ بند ہو۔ اسی طرح کسی میڈیا پرسن کو کوئی سرکاری عہدہ دینے سےگریز کریں۔ میڈیا پرسنز کا سرکاری عہدے قبول کرنا میڈیا کے لیے بھی اچھا نہیں اور خود حکومت کے لیے بھی۔ سیاستدانوں کو سیاستدانوں کا کام کرنے دیجئے۔ بیوروکریٹ اور پولیس کو اپنا کام کرنے دیجئے اور میڈیا کو اپنا کام۔ اس ملک کی بقا کا راستہ ہی یہ ہے کہ ہر کوئی آئین کے دائرے میں رہے اور اپنے کام سے کام رکھے۔ واضح رہے کہ میڈیا کا کام خبر دینا اور تنقید کرنا ہے لہٰذا اسے اس کام سے روکنے کی کوشش نہ کیجئے۔نیک تمنائوں کے ساتھ۔۔۔سلیم صافی