سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کی صاحبزادی اپنی شادی پر ملنے والے تحائف لیکر دوسرے روزمیکے پہنچیں اور والد سے کہنے لگیں ۔۔۔۔۔ توشہ خانہ کیس کے تناظر میں ایک ایسا واقعہ جو آپ کی آنکھیں نم کر ڈالے گا

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار احسان الرحمٰن اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔سید صاحب کی مالی حالت اچھی نہ تھی شادی ہوئی تو نارتھ ناظم آباد میں سابق میئر کراچی نعمت اللہ خان کے کرائے دار ہوگئے۔ انہوں نے چھت پر بنے کوارٹر میں ٹھکانہ کیا جس میں باورچی خانہ تک نہ تھا۔
کمرے کے ایک گوشے میں چولہا رکھ کر اسے باورچی خانہ قرار دے دیا گیا تھا سعید عثمانی صاحب بتاتے ہیں کہ جب ہم سید صاحب سے ملنے جاتے تو گھر کے قریب بازار سے پانچ روپے کی برف لے لیتے اور جا کر سید صاحب کے ہاتھ پر رکھ کر کہتے بھائی ! یہ برف لواور پانی ٹھنڈا کرکے پلادینا۔ اس پانچ روپے کی برف کا پس منظر یہ تھا کہ سید صاحب کے گھر میں ریفریجریٹر تک نہ تھا اور عثمانی صاحب گرمیوں میں ان کے گھر کے گرم پانی سے بچنے کے لئے جاتے جاتے برف لے لیتے کہ کم از کم ٹھنڈا پانی تو ملے گا۔ اب سوچئے کہ مالی لحاظ سے کمزور ایسے شخص کے سامنے برطانیہ کی شاندار ملازمت کی پیشکش ہو اور وہ انکار کردے آپ یقیننا اسے دیوانہ پن کہیں گے شائد بے وقوفی بھی کہہ دیں کچھ ناصح کفران نعمت سے بھی تعبیر کریں گے۔ سید صاحب نے یہ ’’بیو قوفی‘‘ کرنے میں منٹ بھی نہیں لگایا اور پیشکش قبول کرنے سے معذرت کر لی کہ مجھے پاکستان ہی میں رہنا ہے اور یہیں تحریکی کام کرنا ہے اور پھر وہ اپنی دھن میں مگن اپنے مشن میں لگے رہے۔ دیوانہ وار نعرہ مستانہ بلند کرتے رہے ،دیوار پر کلینڈر تبدیل ہوتے رہے یہ سید زادہ جوانی کی سیڑھیاں عبور کر کے بزرگی کی منزل پر جا پہنچا۔ پہلے داڑھی میں چند بال سفید تھے اور اب چند بال سیاہ رہ گئے تھے بچے بھی جوان ہو گئے تھے لیکن مالی حالت اب بھی بہت اچھی نہ تھی بس سفید پوشی سے گزر بسر ہورہی تھی۔
بچوں کے گھر بسانے تھے۔ 2012 میں سید صاحب کی لاڈلی بیٹی کی شادی ہوئی۔ سید صاحب عجیب مزاج کے تھے سادہ سا کارڈ چھپوا لائے جس پر مہمانوں سے درخواست کی گئی تھی کہ کسی تکلف میں نہ پڑیں اور براہ مہربانی کوئی تحفہ لانے کی زحمت نہ کریں۔ بس ہماری بیٹی کو اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت کردیجئے گا۔ لیکن پھر بھی لوگ کہاں سنتے ہیں جو ان کے قریبی دوست احباب تھے وہ نہ مانے اور تحائف لے آئے۔ ان میں بیش قیمت طلائی زیوارت کے سیٹ بھی تھے۔ خیر سے بچی کا فرض ادا ہوا وہ اپنے گھر کی ہوئی اور یہ اپنے گھر کو چلے دوسرے یا تیسرے دن سیدزادی اس طرح اپنے والد کے پاس پہنچی کہ ساتھ میں وہ سارے تحائف تھے کہنے لگی ! ’’ان تحفوں پر میرا حق ہے نہ آپ کا یہ تحفے کسی نے سید منور حسن کو نہیں امیر جماعت اسلامی کو دیئے ہیں اس پر حق جماعت اسلامی کا ہی ہے‘‘سیدصاحب نے فخر سے اپنی بیٹی کو دیکھا اور پھر یہ تحفے جماعت اسلامی کے بیت المال میں پہنچ گئے۔ ایک وہ سید زادہ تھا اور اسکی تربیت میں تراشیدہ ہیرے جیسے کردار کی بیٹی تھی اور ایک آج کے حکمران ہیں، توشہ خانہ ایک ایک کی قلعی کھول رہا ہے ، توشہ خانے میں یہ قد آور کتنے بونے ہو جاتے ہیں ،سرکاری حیثیت میں ملنے والے تحائف کے لئے کیسے اتاؤلے ہوئے جاتے ہیں ۔پہلے ان قانون سازوں نے اپنی سہولت کے لئے قانو ن بنایا کہ ملنے والے تحائف کی اصل قیمت کا پندرہ فیصد ادا کرکے ملکیت حاصل کر لیں اب سنا ہے یہ رقم پچاس فیصد کر دی گئی جس سے سابق وزیر اعظم عمران خان صاحب نے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا ۔کل کی اپوزیشن او ر آج حکومت کی پوزیشن میں بیٹھی قیادت کسی سونے کی گھڑی کا ذکر کررہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ساڑھے آٹھ کروڑ کی بیچ کھائی گئی ۔کہیں سونے کی کیلاشن کا چرچا ہے کہ وہ غائب ہے اور کہیں طلائی کف لنکس کا بھی نام لیا جارہا ہے۔ جواب میں عمران خان کہتے ہیں میراتحفہ میری مرضی ۔۔۔ آج توشہ خانہ وہ حمام ہے جس میں سب بے لباس ہیں سوچ رہا ہوں سیدمنور حسن مرحوم تو کسی سرکاری پوزیشن پر نہ تھے وہ ایسا کیوں نہ کر سکے اور یہ سوال اس سے بھی زیادہ اہم ہے کہ سید منور حسن مرحوم جیسے ایماندار ،کھرے لوگوں کو اس سسٹم نے سر کاتاج بنانے کے بجائے سر سے بوجھ کی طرح کیوں اتار پھینکا !