اگر جلد انتخابات ہو گئے تو ٹھیک ورنہ عمران خان کے جلسوں کا زور ٹوٹ جائے گا کیونکہ ۔۔۔۔۔۔ سہیل وڑائچ اور مظہر عباس کا حیران کن تبصرہ

لاہور (ویب ڈیسک) سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کہتے ہیں کہ انتخابات کے ذریعے عوام کو مستقل موقعہ دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اپنی حمایت میں اٹھنے والی عوامی لہر کو وہ تحریک کی شکل دے سکیں گے؟ کیا آنے والے دنوں میں گرمی کی شدت

اور بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے یہ جوش و ولولہ ٹھنڈا تو نہیں پڑ جائے گا؟سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ عمران خان کے پاس یہ ہی آپشن ہے کہ وہ عوام کو منظم کریں، تحریک چلائیں اور دباؤ ڈالیں جس سے ایک تو اپنا ووٹ بینک تیار کریں اور دوسرا انتخابات جلد کرانے کی کوشش کریں۔سینیئر تجزیہ نگار مظہر عباس کہتے ہیں کہ عمران خان کا پلان بھی یہ ہی لگتا ہے کہ اتنا دباؤ بنائیں کہ مئی کے آخر تک یہ حکومت مفلوج ہو جائے۔ ’اب وہ مفلوج سڑکوں پر کرتے ہیں یا کسی اور طریقے سے کرتے ہیں ان کے پاس یہ ہی آپشن ہے کہ سڑک پر اپنی طاقت کا اظہار کریں تاکہ جو باقی شراکت دار ہیں وہ مجبور ہوجائیں اور وہ حکومت کو کہیں کہ آپ الیکشن کرائیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ یہ ہی عمران خان کی کامیابی ہوسکتی ہے۔ ’اگر وہ اگست یا ستمبر تک انتخابات کرانے میں کامیاب ہوجائیں، اگر ایسا نہیں ہوتا تو ان کا زور ٹوٹ جائے گا کیونکہ بڑے عرصے تک کوئی تحریک نہیں چلا پاتا۔‘مظہر عباس کا خیال ہے کہ لاہور میں بڑا شو کرنے کے بعد عید تک ایک بریک آئے گا جس کے بعد غالباً عمران خان اسلام آباد کے لیے لانگ مارچ کی کال دیں گے۔’عین ممکن ہے کہ ان کے پلان میں یہ بھی شامل ہو کہ بڑے شہروں میں دھرنے دیئے جائیں، سڑکیں بلاک کی جائیں تاکہ حکومت الیکشن کرانے پر مجبور ہوجائے۔ اس کے علاوہ انھیں یہ بھی خدشہ و پریشانی ہے کہ کہیں صورتحال ان کے ہاتھ سے بھی باہر نہ نکل جائے۔‘