نواز شریف اڈیالہ میں قید تھے ، ان سے پوچھا گیا ممنون حسین عمران خان سے وزارت عظمیٰ کا حلف لیں یا نہیں ؟ تو میاں صاحب نے کیا جواب دیا تھا ؟ ناقابل یقین انکشاف

لاہور (ویب ڈیسک) نامور اقلیتی سیاستدان ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ مارچ 2008کاایوان صدر کا ایک تاریخی منظر ہے جہاں صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف سے حلف لینے کیلئے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی مخلوط حکومت کے لیڈرموجود ہیں، یہ دونوں جماعتیں جنرل مشرف کے

اقتدار میں آنے کے بعد زیرعتاب تھیں لیکن قومی الیکشن میں سرخرو ہونے کے بعد اقتدار میں آگئی ہیں،وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نئی کابینہ میں مسلم لیگ (ن) کے وزراکی اکثریت وہی ہے جو اکتوبر 1999میں حکومت کا تختہ الٹتے وقت تھی ، سیاسی اختلافات سے قطع نظر صدر مشرف نے نومنتخب حکومتی اراکین سے حلف لینے کی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا، تاہم حکومتی وزرانے حلف برداری کی تقریب میں بازوؤں میں کالی پٹیاں باندھیں، اس طرح آئینی حدود میں رہتے ہوئے مخالف کے سامنے احتجاج بھی ریکارڈ کرالیا گیا اور پرامن طریقے سے انتقالِ اقتدار کا مرحلہ بھی بخوبی انجام پایا۔سال 2013کے قومی الیکشن کے موقع پر دو روایتی سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں عمران خان کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی، انتخابی مہم کے دوران ہی عمران خان کی جانب سے ایسے بیانات میڈیا کی زینت بنے کہ اگر وہ وزیراعظم منتخب ہوگئے تو وہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین صدر آصف علی زرداری سے حلف نہیں لیں گے۔ الیکشن نتائج کے مطابق نواز شریف کو اکثریت حاصل ہوئی تو ایک مرتبہ پھر ایوان صدر میں حلف برداری کی پروقار تقریب منعقد ہوئی جہاں صدر زرداری نے اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے نواز شریف سے بطور وزیراعظم حلف لیا۔ جب 2018ء میں عمران خان الیکشن میں کامیابی کے بعد وزیر اعظم منتخب ہوئے توایوان صدر میں مسلم لیگ (ن)کے نامزد کردہ صدر ممنون حسین (مرحوم)موجود تھے، اس موقع پر

بھی ایسی قیاس آرائیاں سامنے آئیں کہ صدر کو خان صاحب کی حلف برداری پر سیاسی دباؤ کا سامنا ہے،تاہم صدر ممنون کا اس حوالے سے موقف تھا کہ ریاست کا اعلیٰ ترین منصب قوم کی ایک امانت ہے، اس منصب کوملک میں بحران پیدا کرنے کیلئے یا سیاسی مخالفین کے حلف میں رکاوٹ پیدا کرنے کیلئے استعمال کرنا میرے ضمیر کوگوارا نہیں ۔برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق اڈیالہ قید خانے میں سابق وزیراعظم نواز شریف سے جب رائے طلب کی گئی تو انہوں نے بھی واضح الفاظ میں تائید کی کہ ممنون صاحب کو اپنے ضمیر کی آواز اور جمہوری قدروں کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے،میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ سیاسی اختلاف کو آئین، قانون اور جمہوریت پر ترجیح دی جائے، لہٰذا نہ میں ممنون صاحب کے استعفے کے حق میں ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ کسی کا حلف لینے سے انکار کیا جائے۔اور یوں صدر ممنون حسین نے عمران خان کی حلف برداری کیلئے کوئی رکاوٹ نہ ڈالی بلکہ خوشگوار ماحول میں حلف کا متن پڑھنے میں دشواری کا سامنا کرنے والے خان صاحب کی بار بار درستگی بھی کرتے رہے۔بعد ازاں جب ریاست کے اعلیٰ ترین منصب کی پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عارف علوی کے پاس منتقلی کا آئینی مرحلہ آیا تو ممنون حسین نے ہر طرح سے تعاون کیااور صدر عارف علوی کی تقریب حلف برداری میں اپنی شرکت بھی یقینی بنائی۔موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں جہاں ایک طرف یہ امر خوش آئند ہے کہ اقتدار کی

پرامن منتقلی سےوفاقی کابینہ کی تشکیل اور حلف برداری تک سارے معاملات خوش اسلوبی سے طے پا گئے ہیں، مگروفاق کی علامت صدر مملکت نے وزیر اعظم کا حلف لینے سے معذرت کرلی جسکی وجہ سے سینیٹ کے چئیرمین صادق سنجرانی کو نو منتخب وزیراعظم صاحب سے حلف لینا پڑا۔ وفاقی کابینہ کی تشکیل کے بعد ایک بار پھر صدر پاکستان کی طبیعت خراب ہوگئی اور وہ اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہوگئے،اسی طرح ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں آئینی طور پر نیا وزیراعلیٰ منتخب کرلیا گیاہے لیکن سابق پی ٹی آئی حکومت کا نامزد گورنر حلف لینے سے انکاری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی وابستگیاں اپنی جگہ لیکن جب آپ ایک سرکاری منصب سنبھال لیتے ہیںتو آپ پر ریاست کی اہم ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں ۔ ریاستی منصب امانت ہوتے ہیں اور کسی کوبھی اپنی آئینی ذمہ داریوں سے یوں بھاگنا نہیں چاہئے،ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے نہ صرف ملک میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے بلکہ سرکاری منصب اور ادارے بھی متنازع ہو جاتے ہیں۔ میرا صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی صاحب کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ ایک سمجھدار اور جہاندیدہ شخص ہیں ،انہیں بدلتے ہوئے سیاسی حالات کا درست ادراک کرنا چاہئے، آج وہ بطور وفاق کی علامت ایوان صدر میں موجود ہ ہیں، کل وہ بھی ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔تاریخ کے اس نازک دوراہے پر درست فیصلہ ہی ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ اچھے الفاظ سے یاد کرنے کا باعث بنے گا، ورنہ تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔