Categories
اسپیشل سٹوریز

“کون کون سے معاملات تھے جن پر سابق حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر نہیں تھی” اینکر پرسن شہزاد اقبال نے نشاندہی کر دی

اسلام آباد(ویب ڈیسک) معروف اینکر پرسن شہزاد اقبال نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ڈیڑھ ماہ تک ڈیڈ لاک برقرار رہا لیکن بعد میں وہی نام سامنے آیا جو فوج کی طرف سے دیا گیا ۔وہ میرے خیال میں ایسے لمحات تھے

جن کے بعد سول حکومت اور ملٹری تعلقات میں دراڑ آئی تھی۔نجی ٹی وی جیو نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری کا بیان کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اگر تعلقات اچھے ہوتے تو وہ آج حکومت میں ہوتےزیادہ حقیقت پر مبنی ہےاگر آپ اس کا موازنہ کریں امریکی سازش کے تناظر میں تو ۔ان کا کہنا تھاکہ حکومت کےآغاز سےاور ساڑھے تین سال کے دوران سول،حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے دوران تعلقات بہت اچھے تھےوہ ایک پیج پر تھے بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو سیاسی تعلقات تھے اس میں بھی اسٹیبلشمنٹ نے بڑی مدد دی ہے عمران خان کی حکومت کو چاہے وہ بل پاس کروانا ہویا دیگر مسائل ہوں،ان پر بھی بڑی ان کو سپورٹ ملی ہے۔تجزیہ کار کا کہنات تھا کہ فیٹف کے معاملے پر سب ایک تھے کیونکہ وہ کسی ایک پارٹی کا نہیں بلکہ ریاست پاکستان کا معاملہ تھا۔لیکن کچھ معاملات پر فوج اور حکومت ایک پیج پر نہیں تھی کیونکہ پی ٹی آئی نے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کر رہے تھےاس کے علاوہ بزدار حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے دوران دوریاں پیدا کر رہے تھےکیونکہ اتنا بڑا صوبہ عثمان بزدار نہیں چلا سکتے تھے ان کے پاس نہ تو تجربہ تھا اور نہ ہی وہ اس کی اہلیت رکھتے تھے۔یہ بھی ایک وجہ تھی جس پر اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک پیج پر نہیں تھی۔شہزاد اقبال کا کہنا تھا کہ اسی طرح خارجہ محاذ پر بھی کچھ مسائل تھے جیسے ملائیشیا کی سمٹ میں عمران خان نےشرکت کی حامی بھر لی لیکن بعد میں دوست ممالک کے اعتراض پر شرکت نہیں کی۔اس پر بھی اسٹیبلشمنٹ کا یہ نقطہ نظر تھا کہ

ایک دوست ممالک جو ہماری مالی طور پر مدد کر رہے ہیں ان کے خلاف علیحدہ سے بلاک نہیں بنایا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ڈی جی آئی ایس آئی پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ڈیڑھ ماہ تک ڈیڈ لاک برقرار رہا لیکن بعد میں وہی نام سامنے آیا جو فوج کی طرف سے دیا گیا ہے۔وہ میرے خیال میں ایسے لمحات تھے جن کے بعد سول حکومت اور ملٹری تعلقات میں دراڑ آئی تھی۔