بڑی عمر کی عورت یا مرد سے شادی آج بھی ‘قابل اعتراض’ کیوں ہے؟

لاہور: (ویب ڈیسک) سال 2019 سے ایک چارٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہالی وڈ اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو نے اپنی زندگی میں کتنی خواتین سے تعلق رکھا۔ سوشل میڈیا ایپ ریڈ اٹ پر ایک صارف نے اس چارٹ میں ایک نمایاں پہلو کی نشاندہی کی۔ انھوں نے دیکھا کہ ڈی کیپریو خود اس وقت 44 سال کے تھے مگر وہ 25 سال یا اس سے کم عمر کی خواتین کو ڈیٹ کرتے رہے۔ ان کے مطابق وہ ان خواتین کی 26ویں سالگرہ سے پہلے ان سے اپنا تعلق توڑ لیتے تھے۔
اس چارٹ پر مختلف آرا سامنے آئیں۔ بعض لوگوں نے ڈی کیپریو کو داد دی کہ وہ اب بھی نوجوان خواتین میں مقبول ہیں اور اپنے اندر ان کے لیے ایک کشش رکھتے ہیں۔ تاہم کچھ لوگوں نے ہالی وڈ اداکار پر تنقید کرتے ہوئے انھیں اپنی عمر کی خواتین ڈھونڈنے کا مشورہ دیا۔تین سال بعد بھی یہ چارٹ گردش کر رہا ہے۔ مبصرین نے ڈی کیپریو کی ذاتی زندگی پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے اور وہ جانتے ہیں ان کی موجودہ پارٹنر 24 سالہ کمیلا مورون ہیں۔ڈی کیپریو کی رومانوی زندگی پر ردعمل معاشرے میں اس ٹیبو یا ’ممنوع یا قابل اعتراض عمل‘ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو جوڑوں میں عمر کے فرق سے منسلک ہے۔ بعض لوگ شادی یا تعلق میں عمر کے فرق کو سراہتے ہیں جبکہ دوسروں کے لیے یہ قابل قبول ہی نہیں کہ کسی کا شریک حیات ان سے آدھی عمر کا ہو۔ ڈیمی مور اور ایشٹن کوچر کی بات کی جائے یا جارج اور امل کلونی کی، جب بات معروف شخصیات کی شادیوں میں عمر کے فرق کی ہو تو زبانیں ہرگز نہیں رکتیں۔ 2014 کے دوران امریکہ میں مخالف جنس کے رومانوی تعلقات میں عمر کے فرق کی اوسط 2.3 سال تھی۔ مگر کئی جوڑوں میں عمر کا فرق اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ مغربی ممالک میں قریب آٹھ فیصد جوڑوں کے درمیان 10 سال یا اس سے زیادہ عمر کا فرق ہوتا ہے۔ مگر مردوں کے مردوں سے تعلقات میں یہ 25 فیصد اور خواتین کے خواتین کے ساتھ تعلقات میں یہ 15 فیصد کیسز میں ہوتا ہے۔ کچھ کیسز میں یہ فرق مزید بڑھ جاتا ہے۔ ڈیٹا کے مطابق امریکہ میں قریب ایک فیصد مخالف جنس کے جوڑوں میں عمر کا فرق 28 سال یا اس سے زیادہ ہے۔ رومانوی تعلق میں عمر کے فرق سے جڑے ہمارے خیالات دراصل ہزاروں برسوں تک ہماری ارتقائی سوچ کا نتیجہ ہیں اور اس میں کئی نسلوں کے سماجی اور ثقافتی اصولوں نے اپنا اثر چھوڑا ہے۔
گذشتہ سو برسوں کے دوران معاشی تبدیلی اور صنفی برابری کے فروغ نے ہمارے لیے عمر کے فرق کے تصور کو بدل دیا ہے۔ سماجی انصاف کی حالیہ تحریکوں میں عمر کے فرق سے ہونے والی شادیوں میں طاقت کی مرکزیت پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔ ایسے جوڑے جن میں عمر کا فرق زیادہ ہو، ان پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ یہ تصورات بھی بدل سکتے ہیں۔ تاہم کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نوجوان نسل بہت زیادہ یا بہت کم عمر کے شریک حیات سے شادی کے خیال کو زیادہ سختی سے رد کرتی رہے گی۔ ایسے لوگ جنھیں ڈی کیپریو کے پارٹنر کا انتخاب بُرا لگتا ہے ان کے پاس اس کی کئی وجوہات ہیں۔ عمر کے فرق پر تنقید کرنا بہت عام سی بات ہے۔ دیگر ٹیبوز کی طرح ان کی بنیاد ہزاروں برسوں کا ارتقائی عمل ہے۔ اور اس میں سماجی اور ثقافتی پہلو بھی پائے جاتے ہیں۔ نفسیات کی ماہر اور لندن میں دی چیلسی سائیکالوجی کلینک کی شریک بانی ایلینا ٹورونی کہتی ہیں کہ ’کئی ثقافتوں میں یہ قابل قبول نہیں اگر آپ عمر میں اپنے سے بہت بڑے یا بہت چھوٹے شخص سے محبت کر بیٹھیں۔‘ ’ارتقائی عمل کے نظریے سے یہ بات معنی رکھتی ہیں کہ ہم کس سے تعلق جوڑتے ہیں اور آیا اس کے بعد فیملی بنائی جاسکتی ہے۔ اس کا تعلق بیالوجی سے بھی ہے مگر یہ بھی سوچا جاتا ہے کہ کیا دونوں والدین اپنے بچے کی پرورش کے لیے زندہ رہیں گے۔‘ مردوں اور خواتین دونوں میں قریب 35 سال عمر کے بعد بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی رہتی ہے۔ خواتین بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کافی تیزی سے کھو دیتی ہیں۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہمیں ایسے لوگوں سے کشش محسوس کرنی چاہیے جو عمر میں ہمارے جیسے ہوں۔
ہم جنس پرست جوڑوں سے متعلق ہمارے پاس کم ڈیٹا ہے مگر اس کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسے جوڑوں میں عمر کا فرق زیادہ ہونا معمولی بات ہے۔ شاید اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیالوجی کے اعتبار سے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنا یہ طے کرتا ہے کہ ہم شریک حیات کی تلاش کس سوچ سے کرتے ہیں۔ بات صرف والدین کی پرورش تک محدود نہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنی عمر کے شخص کے ساتھ تعلق قائم کیا جائے تو یہ طویل عرصے تک چلتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا اس لیے ہے کیونکہ جوڑے ایک ساتھ زندگی کی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں اور ایسے میں ان کے درمیان اتفاق بڑھتا چلا جاتا ہے۔ گریس لورڈن لندن سکول آف اکنامکس میں بہیویورل سائنس (انسانی طرز عمل) کی پروفیسر ہیں اور وہ رشتے میں عمر کے فرق اور خوشی کے تناسب پر تحقیق کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’شادی کے ابتدائی 10 برسوں کے دوران زیادہ لوگ اس صورت میں شادی سے مطمئن ہوتے ہیں جب ان کا پارٹنر نوجوان ہو۔‘’تاہم وقت کے ساتھ مختلف عمروں کے جوڑے شادی سے ناخوش ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان کا تناسب ایک جیسی عمر کے جوڑوں میں کم ہوتا ہے۔ ایک ہی عمر کے جوڑوں میں طلاق کی شرح قدرے کم ہوتی ہے۔
فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں اور بریگٹ کی شادی 2007 میں ہوئی مگر وہ آج بھی میڈیا کی نظروں میں رہتے ہیں تاہم ان اہم عوامل کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ سماجی و معاشی حالات میں ارتقا کا عمل اس نظریے کو بدل بھی دیتا ہے۔ سنہ 1900 کے دوران جوڑوں میں عمر کے فرق کی اوسط سال 2000 کے مقابلے دگنی تھی۔ تاریخی اعتبار سے (خاص کر مڈل اور اپر کلاس میں) یہ امکان زیادہ ہوا کرتا تھا کہ آپ اپنے سے بہت بڑے یا بہت چھوٹے شخص سے شادی کریں۔ اس کی وجوہات بیالوجیکل ہونے کے ساتھ معاشی بھی ہیں۔ اگر ایک 50 سال کا مرد بچے پیدا کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی ہم عمر خواتین میں کم دلچسپی لے گا جو کہ اس کی بہت کم صلاحیت رکھتی ہیں۔ پدر شاہی معاشرے میں مردوں کے پاس معاشی قوت ہوتی ہے اور ان کے پاس یہ راستہ دستیاب ہوتا ہے کہ وہ اپنے سے بہت کم عمر کی خاتون سے شادی کر سکیں۔ 19ویں صدی اور 20ویں صدی کے اوائل میں اکثر خواتین کو کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ تو ان کی ترجیح ہوسکتی تھی کہ وہ ایسے مردوں سے شادی کریں جو ان کی زندگی میں مالی استحکام لاسکیں۔ اور مردوں کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ معاشی طور پر مستحکم ہو کر بعد میں شادی کر لیں۔ ایسا کرنے سے ان کی معاشرے میں زیادہ طاقت ہو گی کہ وہ نوجوان بیوی ڈھونڈ کر بچے پیدا کرنے کے امکان بڑھا سکیں۔ ہم دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اپنی رائے بھی وہی بنا لیتے ہیں خواتین کی معاشی قوت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور بڑی عمر کے شریک حیات کی کشش اب پہلے سے کم ہوئی ہے جس نے بڑی عمر کے مرد سے شادی کے کیسز کم کر دیے ہیں۔ اس طرح یہ موضوع مزید ٹیبو بن چکا ہے۔ معاشروں میں محبت اور تعلقات کو لے کر ترقی پسند سوچ بڑھی ہے مگر جہاں تک بات ایسے جوڑوں کی ہے جن میں ایک پارٹنر کی عمر کہیں زیادہ ہو ایسے میں اب بھی جملے کسے جاتے ہیں۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہوسکتا ہے دونوں ایک ساتھ خوش ہوں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دونوں میں طاقت کا عدم توازن ہے اور یہ تعلق یکطرفہ ہے جس میں ایک شخص دوسرے کی دولت یا مقام حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایسی اصطلاحات بھی موجود ہیں جو اس نظریے کو تقویت بخشتی ہیں جیسے ’شوگر ڈیڈی‘ اور ’گولڈ ڈگر‘۔ یا یہ سوچا جاتا ہے خاتون میں ’ڈیڈی ایشوز‘ ہیں یعنی ان کے اپنے والدین سے تعلقات کچھ اچھے نہیں تھے جس کے نتیجے میں ایسا ہوا۔
حالیہ برسوں میں ایسی اصطلاحات بھی آئی ہیں جس میں کسی جوڑے میں خاتون کی عمر زیادہ ہو جیسے ’کوگر‘ یا ’ٹوائے بوئے‘۔ ان کی مدد سے نئی طرز کے تعلقات کو پہچانا جانے لگا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 1963 کے دوران برطانیہ میں صرف 15 فیصد دلہنیں ایسی تھیں جن کی عمر دلہے سے زیادہ تھی۔ مگر 1998 تک یہ تعداد 26 فیصد تک بڑھ گئی اور 2011 کی ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ سنہ 1970 کی دہائی کے مقابلے میں اب ایسی خواتین کی تعداد تین گناہ بڑھی ہے جو اپنے سے پانچ سال یا اس سے بھی چھوٹے مرد کے ساتھ شادی کر چکی ہیں یا ساتھ رہتی ہیں۔ کم عمر کے مرد سے شادی کرنے والی خواتین کو کافی زیادہ باتیں سننی پڑتی ہیں۔ لورڈن کے مطابق ’ہم انسان بنیادی طور پر ہر چیز پر رائے بنا لیتے ہیں۔ اگر ہمارا ہمسایہ ایسا کام کرے جو ہماری سوچ سے متصادم ہے تو ہم اسے اپنی توجہ کا مرکز بنا لیتے ہیں۔‘ حال ہی میں آئے ایک پاکستانی ڈرامے ’دوبارہ‘ میں دکھایا جاتا ہے کہ جب ایک بڑی عمر کی عورت اپنے سے کم عمر کے نوجوان سے شادی کرتی ہے تو اسے معاشرے کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ’جہاں تک بات شادی سے منسلک تصورات کی ہے تو اپنے سے کم عمر مردوں سے تعلق بنانے والی خواتین سب سے منفرد ہوتی ہیں۔ اس لیے انھیں سب سے زیادہ تنقید برداشت کرنا پڑتی ہے۔‘فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں نے جب اپنے سے 24 سال بڑی خاتون سے شادی کی تو انھوں نے میڈیا کی بے انتہا توجہ حاصل کر لی۔ ایسا ہی 41 سالہ کم کارڈیشین کے ساتھ ہوا جن کے پارٹنر 28 سالہ پیٹ ڈیوڈسن ہیں۔ مگر ٹورونی کا خیال ہے کہ بڑی عمر کے مرد اور کم عمر کی خاتون کے درمیان تعلق زیادہ تنقید کو جنم دیتا ہے۔شاید اس کا تعلق ’می ٹو‘ مہم سے ہے جس میں طاقت کا عدم توازن زیر بحث آیا اور اس موضوع کو تعلقات کے تناظر میں کافی توجہ ملی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عمر کے زیادہ فرق اور مردوں کو حاصل سماجی و معاشی قوت کی وجہ سے معاشرے میں مردوں کا غلبہ رہتا ہے اور اس سے نوجوان خواتین مشکل میں پڑ سکتی ہے۔ می ٹو مہم کے بعد ہونے والی ایک تحقیق میں معلوم ہوا کہ عمر کے فرق کے ساتھ قائم کردہ تعلقات میں استحصال ہوتا ہے۔ محققین کے مطابق نوجوان ایسے تعلقات کی مخالفت کرتے ہیں جن میں مرد پارٹر کی عمر زیادہ ہو۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے تعلقات فائدے حاصل کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں، مثلاً لوگ اس لیے کسی کے ساتھ سیکس کرتے ہیں کہ ایک اچھا لائف سٹائل حاصل کیا جاسکے۔
کیا عمر کے فرق کا ٹیبو کبھی ختم ہوگا؟آج کے دور میں ہر طرح کے تعلقات کو زیادہ سے زیادہ تسلیم کیا جا رہا ہے، چاہے وہ کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں۔ اس بات سے قطع نظر کے اس میں جنس اور صنف کی کیا حیثیت ہے اور اس میں کتنے لوگ شامل ہیں۔ ٹورونی کے مطابق کئی طرح کے تعلقات اب عام ہو گئے ہیں اس لیے انھیں امید ہے کہ زیادہ یا کم عمر کے شریک حیات کے لیے بھی معاشرے میں احترام بڑھے گا۔ ’ہم ایسے دور میں ہیں جہاں آزادی اور احترام ہے۔ مجھے لگتا ہے وقت کے ساتھ لوگ دوسروں کے انتخاب کے بارے میں کم منفی رائے رکھیں گے، چاہے بات عمر کے فرق کی ہو یا کسی اور بارے میں۔‘ مگر اس کے شواہد بہت کم ہیں کہ ہمارے معاشرے میں عمر کے فرق کو معمول کی چیز سمجھا جائے۔ اب بھی اداکاروں کے لو افیئرز سرخیوں میں رہتے ہیں اور نوجوان ایسے موضوعات پر سخت رائے رکھتے ہیں جس میں یہ دکھایا جائے کہ تعلقات میں عمر کا بڑا فرق ہے۔ خاص کر تب جب خاتون کے مقابلے مرد کی عمر زیادہ ہو۔اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ نوجوان سماجی تبدیلی میں پیش پیش ہوتے ہیں تو یہ سوچا جاسکتے ہیں اس معاملے میں یہ ٹیبو کافی عرصے تک باقی رہ سکتا ہے کیونکہ نوجوان عمر کے فرق کے شدید مخالف نظر آتے ہیں۔ لورڈن کے مطابق ’مجھے امید ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں منفی رائے کم رکھیں اور ان کی رائے کا احترام کریں۔ لیکن مغربی معاشرے میں یہ بیانیہ بہت پختہ ہوچکا ہے کہ ’اچھا‘ تعلق کیسا دکھتا ہے۔ ’اس کے امکان کم ہیں کہ لوگ دوسروں کی پسند ناپسند پر رائے نہ بنائیں اور اس میں اپنے اصولوں کو مدنظر نہ رکھیں۔ اس سلسلے میں عمر کے فرق والے جوڑوں کا بھی شمار کیا جاسکتا ہے۔‘