کابینہ کے اراکین پر مقدمات!!!! کس کابینہ میں کتنے ملزم تھے؟ اہم تفصیلات منظر عام پر

لاہور: (ویب ڈیسک) شہزاد ملک لکھتے ہیں کہ” حال ہی میں پاکستان مسلم لیگ نواز اور ان کی اتحادی جماعتوں پر مشتمل حلف اٹھانے والی وفاقی کابینہ کے بارے میں سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر افراد وہ ہیں جن کے خلاف مختلف ادوار میں مقدمات درج کیے گئے ہیں اور ان دنوں وہ ضمانتوں پر ہیں۔
حلف اٹھانے سے پہلے جن کے خلاف مقدمات درج ہیں ان میں وزیر اعظم میاں شہباز شریف سرفہرست ہیں اور ان پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج ہے۔ اس مقدمے میں نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز بھی نامزد ہیں اور ان پر حلف اٹھانے سے دو روز بعد ہی لاہور کی متعقلہ عدالت میں فرد جرم عائد کی جانی تھی۔ ان پر نیب کے مقدمات بھی ہیں جن میں آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور صاف پانی کی سکیم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جن وفاقی وزرا پر نیب کے مقدمات ہیں اور وہ ان دنوں ضمانتوں پر ہیں، ان میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال، وفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق کے علاوہ وفاقی وزیر سید خورشید شاہ شامل ہیں۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے وفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق کی نیب کیس میں ضمانت سے متعلق اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ نیب کو وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے ’پولیٹیکل انجینئرنگ‘ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ نیب کی طرف سے ان ریمارکس کو حذف کرنے سے متعلق سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی تاہم ابھی تک سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس عدالتی حکم نامے کا حصہ ہیں۔ جن وفاقی وزرا کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہیں، ان میں ایاز صادق، خرم دستگیر، رانا ثنا اللہ، شاہ زین بگٹی، عبدالقادر پٹیل اور رانا تنویر حسین شامل ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات کی سمگلنگ جبکہ ایاز صادق اور رانا تنویر حسین پر پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر نیب کی عمارت اور پولیس اہلکاروں پر حملے کا مقدمہ درج ہے۔
تحریکِ انصاف کے وزرا پر کیا کیسز تھے؟ یاد رہے کہ سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کی کابینہ میں شامل متعدد افراد کے خلاف مقدمات بھی درج تھے اور یہ تمام مقدمات ضابطہ فوجداری دفعات کے تحت درج کیے گئے تھے۔ ان میں موجودہ صدر پاکستان کے علاوہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے اہم ارکان شامل ہیں۔ان ارکان میں سابق وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک، سابق وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شریں مزاری، سابق وفاقی وزیر شفقت محمود کے علاوہ پنجاب کے سابق صوبائی وزیر علیم خان اور شوکت یوسفزئی کے علاوہ متعدد پی ٹی آئی رہنما شامل تھے۔ان افراد کے خلاف پی ٹی آئی کے اسلام آباد دھرنے کے دوران پارلیمنٹ ہاؤس پر حملہ، پی ٹی وی کی عمارت پر حملہ اور پولیس کی تحویل سے لوگوں کو آزاد کروانے کے مقدمات درج تھے۔ موجودہ صدر عارف علوی سمیت ان افراد کو چند ہفتے پہلے ہی دو مقدمات سے بری کیا گیا ہے۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ پاکستانی آئین اور قانون میں ایسی کوئی شق موجود نہیں جو کسی بھی شخص کو صرف مقدمات درج ہونے کی وجہ سے عوامی عہدہ رکھنے سے روکتی ہو۔انھوں نے کہا کہ پاکستانی آئین کے مطابق اگر کسی بھی شحص کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں لیکن ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوا تو وہ بے گناہ ہے اور وہ نہ صرف انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے بلکہ اس کو کوئی عوامی عہدہ رکھنے سے بھی نہیں روک سکتا۔انھوں نے کہا کہ اب تو پاکستان کے بچے بچے کو بھی معلوم ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات سیاسی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ایسے سیاسی مقدمات میں مجرم ثابت ہونے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ ماضی میں تو بڑے بڑے سیاسی خاندانوں کو محض بدنام کرنے کے لیے ان کے خلاف بھینسیں چوری کرنے اور جانوروں کے کھیتوں میں گھسنے اور فصلوں کو نقصان پہنچانے جیسے مقدمات بھی درج کیے گئے۔انھوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے متعدد ارکان کے خلاف اس وقت بھی مقدمات درج تھے جب انھوں نے سنہ 2018 کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے۔ انھوں نے کہا کہ یہ مقدمات سنہ 2014 میں درج کیے گئے تھے اور یہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں زیر سماعت رہے۔
انھوں نے کہا کہ اسی طرح موجودہ حکومت کے متعدد اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کے خلاف اس وقت بھی مقدمات درج تھے جب انھوں نے عام انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ سابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر وزارت کے دوران کوئی شخص کسی مقدمے میں مجرم قرار دے دیا جاتا ہے تو اس کے بعد اس کی قومی اسمبلی یا سینیٹ کی رکنیت ختم ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ شخص عوامی عہدہ نہیں رکھ سکتا۔ انھوں نے کہا کہ اگر کسی رکن پارلیمان کو کسی مقدمے میں سزا ہوگئی ہو تو وہ پانچ سال تک نہ انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے اور نہ ہی کوئی عوامی عہدہ رکھ سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کے بارے میں ہے کہ اگر ان کے خلاف مقدمہ درج ہو جائے تو اس وقت تک اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتا جب تک کہ وہ اپنے خلاف درج ہونے والے مقدمے میں عدالت سے بے گناہ قرار نہیں دیا جاتا۔ واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے علاوہ حکمران جماعت کے رہنما طلال چوہدری اور دانیال عزیز کو توہین عدالت کے مقدمے میں سزا سنائی گئی تھی جس کے بعد وہ پانچ سال تک انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں تھے۔ عاصم تنویر ایڈووکیٹ جو پراسیکیوشن برانچ میں کام کر چکے ہیں، ان کے مطابق اگر کسی سیاستدان کے خلاف مقدمات ان کے سیاسی مخالفین نے درج کروائے ہوں تو وہ مقدمات اس وقت بے وقعت ہو جاتے ہیں جب متاثرہ شخص کی جماعت کی حکومت آ جاتی ہے۔