عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے میں کس شخصیت نے کردار ادا کیا؟؟ نئے انتخابات کب ہونے والا ہے؟؟ ناقابل یقین حقائق منظر عام پر

لاہو: (ویب ڈیسک) محمد علی یزدانی لکھتے ہیں کہ” اپنے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ عمران خان کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گرانے اور اس کے بعد ان کی رخصتی میں جتنی سیاسی جدوجہد مولانا فضل الرحمن نے کی ہے اتنی شاید ہی موجودہ اتحادی حکومت میں کسی اور سیاسی جماعت یا سیاست دان نے کی ہو۔

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پی ڈی ایم میں دراڑ پڑ گئی اور قومی اسمبلی کی تیسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی سے استعفوں کے معاملے پر اختلافات کی وجہ سے اپنی راہیں پی ڈی ایم سے جدا کرلیں، لیکن اس کے باوجود یہ مولانا فضل الرحمن کی شخصیت ہی تھی جو پیپلز پارٹی کو دوبارہ پی ڈی ایم میں لے کر آئے اور حکومت کیخلاف تحریک کا ماحول بنا کر عمران خان کے اقتدار کا خاتمہ کیا۔ شہباز شریف کے وزیراعظم کے منصب پر بیٹھنے کے بعد اب مولانا فضل الرحمن نے بھی نئے انتخابات کا مطالبہ کر دیا ہے (کچھ لوگ حیران بھی ہو رہے ہیں شاید اتحاد میں دراڑ پڑ گئی ہے یا مولانا کو کئے گئے وعدوں سے اتحادی حکومت پھر گئی ہے، جس کی وجہ سے وہ ایسا کہہ رہے ہیں اور کچھ لوگ یہ کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ اپوزیشن کا اتحاد چلنے سے پہلے ہی بیٹھ گیا ہے)۔ قارئین آپ کو یاد ہو گا کہ مولانا فضل الرحمن نے 2018ء سے ہی جب سے یہ موجودہ اسمبلی وجود میں آئی اس کے مینڈیٹ کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا اور ان کا اول روز سے ہی یہ مطالبہ تھا کہ عمران خان کو جو مینڈیٹ دیا گیا ہے وہ جعلی ہے اور وہ کسی صورت اس کو قبول نہیں کرتے اور نہ ہی کریں گے۔مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کی حکومت کیخلاف تحریک شروع کی اور پھر لانگ مارچ بھی کیا تیرہ دنوں تک اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا تاکہ عمران خان کی حکومت پر دباؤ قائم رکھا جا سکے کہ وہ ایک جعلی مینڈیٹ والی حکومت کے سہارے کھڑے ہیں۔ اب بھی مولانا فضل الرحمن کا یہی موقف ہے کہ شہبازشریف کی وزات عظمی کے دران ہی اگر وہ انتخابی اصلاحات کی جانب نہیں آتے یا اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک اتحادی حکومت کا ساتھ دیتے ہیں تو پھر ان کے ووٹرز یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ جب وہ اپوزیشن میں تھے تو اسمبلی اور انتخابات کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھاتے رہے اور جب اقتدار میں آئے تو سب جائز ہو گیا (شاید اسی لئے مولانا فضل الرحمن بھی چاہتے ہیں کہ جتنی جلدی ہو سکے انتخابات کی تاریخ کا تعین کر دیا جائے تا کہ آنے والے دنوں میں عمران خان کو موجودہ حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کا موقع نہ مل سکے)۔

مولانا فضل الرحمن کے قریبی ذرائع یہی بتاتے ہیں کہ وہ خود بھی اس اتحادی حکومت کو لمبے عرصے تک لے کر چلنے کے قائل نہیں ہیں ان کا موقف یہی ہے کہ جو بھی انتخابی اصلاحات کرنی ہیں کی جائیں، ای وی ایم پر اپوزیشن جماعتوں کے جو اعتراضات تھے وہ دور کئے جائیں اور اوور سیز ووٹنگ کے معاملے پر اسمبلی سے اصلاحات لا کر نئے انتخابات کا ڈول ڈالا جائے تا کہ عمران خان کی غلطیوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنے سے روکا جا سکے۔ اس وقت معیشت کی جو صورتحال ہے وہ کسی طور پر قابل رشک نہیں ہے، بلکہ اس قابل بھی نہیں ہے کہ اس کی تعریف کی جا سکے اور اس شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد حکومت کے معاشی ماہرین سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ عوام کو ریلیف کیسے دینا ہے(مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی نے تو آنے والے دنوں میں چیزوں کی قیمتوں کے بڑھنے کا ابھی سے عندیہ دے دیا ہے اور شہباز شریف کی اسمبلی میں تنخواہیں بڑھانے کے وعدوں پر بھی حکومت نے نظر ثانی کر لی ہے)۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کی پارٹی جے یو آئی ف بلوچستان اور کے پی کے میں ایک مضبوط انتخابی جماعت ہے اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ انہوں نے چار سال کی جدو جہد سے عمران خان کیخلاف جو ماحول تیار کیا ہوا ہے اور کے پی کے میں حال ہی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ جے یو آئی ف خیبر پختونخوا کی ایک بڑی مقبول جماعت ہے تو ایسی صورت میں موجودہ حکومت کو طول دے کر عمران خان کی معاشی کوتاہیوں کا نقصان برداشت کرنا کسی صورت بھی ایک سمجھدارانہ فیصلہ نہ ہو گابلکہ الٹا اس کا فائدہ آنے والے انتخابات میں تحریک انصاف کو بھی ہو سکتا ہے جو ابھی سے سیاسی شہید بننے کی کوشش میں مصروف ہے۔ پاکستان میں اگر اتحادی حکومتوں کے قیام کا جائزہ لیں تو اس کی تاریخ کوئی ایسی سنہری نہیں ہے کہ موجودہ حکومت کو اس پیرائے میں رکھ کر اس کی کامیابی کی پیشگوئی کی جا سکے۔ اتحادیوں کو راضی رکھنا ہی سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے اور یہاں تو حکومت اگر اسمبلی کی مدت پوری بھی کرتی ہے تو صرف ڈیڑھ برس کا عرصہ باقی ہے ایسے میں اتحادیوں کے ناز نخرے برداشت کرنا اور پھر ان کے شکوے شکایتوں کو حل کرنا موجودہ حکومت کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔اس لئے موجودہ حکومت کے لئے فلاح اسی میں ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن صاحب کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے جلد سے جلد انتخابی اصلاحات کا عمل قومی اسمبلی میں مکمل کر کے انتخابات کی جانب جائے وگرنہ گزشتہ حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کے بوجھ تلے اگر موجودہ اتحادی حکومت دب گئی تو آنے والے انتخابات میں اس اتحاد میں موجود جماعتوں کے لئے کامیابی حاصل کرنا مشکل ضرور ہو جائے گا۔