ملکی سیاست میں عدم استحکام!!!! عمران خان سڑکوں پر، یہ کمپنی کب تک چلے گی؟ اہم رازوں سے پردہ اٹھ گیا

لاہور: (ویب ڈیسک) نسیم شاہد لکھتے ہیں کہ” طویل انتظار کے بعد بالآخر وفاقی کابینہ نے حلف اٹھا لیا۔ اس عرصے میں یوں لگ رہا تھا کہ حکومت بننے سے پہلے ہی ٹوٹ جائے گی۔ اتحادیوں نے وزیر اعظم شہبازشریف کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔ حتیٰ کہ پیپلزپارٹی نے بھی ایک بار تو ہاتھ کھڑے کر دیئے تھے کہ حکومت میں شامل نہیں ہونا پھر آصف علی زرداری کو رام کر لیا گیا اور وہ وزارتیں لینے پر آمادہ ہو گئے۔

یہ عجیب جمہوری تجربہ ہے کہ جس کی مدت کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں کہنے کو ایک سال چار ماہ رہتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ یہ مدت پوری ہو۔ خود اسی حکومت میں موجود شخصیات فوری انتخابات کی ضرورت پر زور دے رہی ہیں۔ یہاں تک کہ مولانا فضل الرحمن بھی یہ مطالبہ کر رہے ہیں اس سارے عمل میں اگر کسی شخص کو حکومت میں رہنے کی ضرورت ہے تو وہ شہباز شریف ہیں وہ خود کو پاکستان سپیڈ بنا چکے ہیں اور غالباً چاہیں گے کہ باقی ماندہ عرصے میں پانچ سال کی مدت والے کام کر جائیں۔ انہوں نے پشاور موڑ سے اسلام آباد تک میٹروبس چلا کر سب کو حیران کر دیا۔ بعد میں کھلا کہ یہ تو پہلے سے سی ڈی اے کا تیار منصوبہ تھا اور دو ماہ پہلے اس کے حوالے سے اشتہار بھی شائع ہو چکا ہے۔ خیر یہاں نام تو اسی کا ہوتا ہے جو افتتاح کرتا ہے۔ شہباز شریف نے اب اسی منصوبے کا افتتاح کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ عمران خان کے گھبرانے کا وقت آ گیا ہے۔ سوال یہ ہے جس پاکستان اسپیڈ کے شہباز شریف قائل ہیں کیا ان کی کابینہ کے ارکان بھی ان کا اسی اسپیڈ سے ساتھ دیں گے، علی زیدی نے جو تحریکِ انصاف کے سابق وزیر ہیں کہا ہے، مسلم لیگ ن کے اکثر وزراء ضمانتوں پر ہیں، وزیر اعظم تو پہلے ہی ضمانت پر چلے آ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ بھی ضمانت پر ہیں، یوں وزیر اعظم کی ٹیم میں ضمانتوں کا جمعہ بازار لگ گیا ہے۔ پاکستان میں ضمانت پر ہونا معمول کی بات ہے، یہ صرف چپڑاسی کی نوکری یا کلرک کی آسامی کے لئے دیکھا جاتا ہے کہ امیدوار پر کوئی مقدمہ تو نہیں، سیاست میں ایسی باتوں پر توجہ نہیں دی جاتی بلکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس پر زیادہ کیسز ہیں، وہی سب سے بڑا سیاستدان ہے، خیر مرکز کا معاملہ تو لگتا ہے حل ہو گیا ہے، اتحادی وقتی طور پر ٹھنڈے ہو گئے ہیں اور اپنی اپنی وزارتوں کے مزے لوٹیں گے۔ صدر مملکت عارف علوی نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ موجودہ حکومت کے کسی بندے سے حلف نہیں لینا۔ وہ وقتی طور پر بیمار ہو جاتے ہیں اور یہ ذمہ داری چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی پر آجاتی ہے کہ وہ وزیر اعظم اور بعد ازاں کابینہ سے حلف لیں۔ اب اس بات کا انتظار ہو رہا ہے کہ صدر مملکت پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہیں یا نہیں، یہ ایک آئینی ضرورت ہے اور صدر مملکت نے وہی تقریر کرنی ہوتی ہے جو انہیں حکومت وقت کی طرف سے دی جاتی ہے۔ سنا ہے اس بار صدر کی تقریر میں اظہار تشکر کی قرارداد بھی شامل کی جا رہی ہے جو پچھلی حکومت کے خاتمے کا گویا ایک اعلان ہوگی، اب اس پر صدر مملکت کیا فرمائیں گے اس کا فیصلہ تو آنے والے وقت پر ہی ہوگا بہر حال اس وقت ایک ہلچل سی ضرور موجود ہے اور ٹھہراؤ نظر نہیں آتا۔

ٹھہراؤ آ بھی کیسے سکتا ہے جب سے عمران خان کو حکومت سے نکالا گیا ہے وہ چین سے نہیں بیٹھے۔ انہوں نے جلسوں کی لوٹ سیل لگائی ہوئی ہے اور یہ جلسہ بھرپور رش لے رہا ہے۔ پشاور کراچی کے بعد اب وہ کل لاہور میں جلسہ کرنے جا رہے ہیں لاہوریوں کے بارے میں مشہور ہے کہ جب کوئی اقتدار سے محروم ہوتا ہے تو اس کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں۔ عمران خان کے ساتھ تو وہ کچھ زیادہ ہی ہیں۔ لبرٹی چوک پر انہوں نے پشاور اور کراچی کے جلسوں جیسا رنگ جمایا ہے۔ اب مینار پاکستان پر ان کا جلسہ ایک نیا ریکارڈ قائم کرے گا۔ تحریک انصاف کا ایک ہی مطالبہ ہے فوری اتخابات، اس وقت اس کی مقبولیت کا گراف خاصا بلند ہے ہنگو میں تحریک انصاف کا امیدوار باوجود اس کے جیت گیا کہ اس نے پہلے سے اعلان کر رکھا تھا کہ جیتنے کے بعد وہ مستعفی ہو جائے گا۔ اب ایسے جنونی ووٹرز کو فوری موقع ملے تو ممکن ہے کپتان کو دو تہائی اکثریت سے واپس لے آئیں۔ تاہم ابھی ان کے راستے میں کئی بارودی سرنگیں بھی موجود ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین کا خیال ہے کپتان جلد ہی ان بارودی سرنگوں کا شکار ہو کر سیاسی منظر نامے سے اوجھل ہو جائیں گے۔ انہیں یقین ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کی ”بارودی سرنگ“ عمران خان کو لے بیٹھے گی۔ جس کا اظہار عمران خان بھی اپنے جلسوں میں کر رہے ہیں کہ انہیں راستے سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسرا معاملہ توشہ خانے کا ہے۔ اس موضوع پر کپتان اپنی زبان بند ہی رکھیں تو بہتر ہے۔ کیونکہ وہ جو دلیل بھی لاتے ہیں الٹا ان کے خلاف چلی جاتی ہے۔ حیرانی ہوتی ہے کہ اقتدار میں رہ کر انسان کیسی کیسی حماقتیں کرتا ہے۔ کیا ضرورت تھی ان تحائف کو لینے کی اور اگر لے لئے تھے تو پھر بیچنے کی مجبوری کیا تھی؟ اس نئے تجربے کا ایک اور قصہ پنجاب میں حکومت کی تبدیلی ہے۔ مجھے تو عثمان بزدار پر رشک آتا ہے، مستعفی ہونے کے باوجود اقتدار ہے کہ انہیں چھوڑنے کو تیار نہیں گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے بھی ٹھان لی ہے کہ حمزہ شہباز سے حلف نہیں لینا۔ حلف لینا تو پڑے گا مگر کب اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، اقتدار ہے کہ حمزہ شہباز تو ترسانے پر تلا ہوا ہے پہلے اسمبلی کا اجلاس نہیں ہو رہا تھا اور حمزہ شہباز اپنے ارکان کو ہوٹلوں میں ٹھہرا ٹھہرا کر عاجز آ گئے تھے، مشکل سے اجلاس ہوا تو اس میں لوٹے چل گئے مار دھاڑ کی فلم بھی چلی، بہر حال ڈپٹی سپیکر نے ووٹنگ کرا دی، حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے انہوں نے یقیناً حلف برداری کے لئے شیروانی بھی سلوا لی ہو گی مگر گورنر پنجاب نے پنجابی فلم کی طرح گنڈاسہ پکڑ لیا، ”اے ویاہ نئیں ہو سکدا“ اب معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ یہ سارے مناظر دیکھ کر سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ یہ کمپنی آخر کب تک چلے گی؟ یہ عارضی بندوبست کیا ملک کے مسائل کا حل پیش کر سکے گا؟ یا صرف وقت گزرنے کا ایک عمل ثابت ہوگا۔ کوئی ہے جو اس بارے میں سوچے کہ ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اور نئے انتخابات کے بغیر یہ استحکام نہیں آ سکتا۔