Categories
منتخب کالم

شہباز حکومت تیار رہے!! صدر عارف علوی موجودہ حکومت کے لیے کیا مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں ؟ تہلکہ خیز انکشافات سامنے آگئے

لاہور: (ویب ڈٰسک) اعظم خان اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ” پاکستان کی قومی اسمبلی کے آج (پیر) ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے کے مطابق پارلیمان کے ایوان زیریں میں صدر کے پارلیمان کے مشرکہ اجلاس سے خطاب پر اظہار تشکر کی قرارداد پر بحث ہو رہی ہے۔ یہ ایک پارلیمانی روایت ہے جس کے تحت ہر سال صدر مملکت کے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں خطاب سے قبل گذشتہ سال کے خطاب پر اظہار تشکر کی قرارداد پیش کی جاتی ہے۔

اس بار بھی اس پارلیمانی روایت پر عمل ہو رہا ہے مگر بظاہر ایسا ہی معلوم ہو رہا ہے کہ اتحادی جماعتوں پر مشتمل موجودہ حکومت کے اراکین اس قرارداد پر بحث کرتے ہوئے ان دعوؤں کو دہرائیں گے کہ صدر مملکت ’اپنی ذمہ داریاں اپنے حلف کے تحت آئینی طریقوں سے ادا کرنے سے قاصر ہیں۔‘ خیال رہے کہ تحریک انصاف کے 123 ارکان نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے رکھا ہے یعنی اب وہ اس قرارد پر ہونے والی بحث میں حصہ نہیں لیں گے اور اس قراردار میں جو لکھنا یہ کہنا ہو گا وہ ایوان میں موجود جماعتوں نے ہی کرنا ہے جن کی صدر عارف علوی سے متعلق رائے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ صدر عارف علوی نے موجودہ حکومت کو جو سب سے پہلا سرپرائز دیا تھا وہ عین اس دن دیا جب شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد انھیں صدر پاکستان سے حلف لینا تھا مگر ایوان صدر سے یہ خبر آئی کی صدر عارف علوی کی اچانک طبیعت خراب ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے اب وہ مختصر رخصت پر جا رہے ہیں۔ صدر کی غیر موجودگی میں وزیراعظم شہباز شریف سے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے حلف لیا۔ مگر یہاں ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے صدر عارف علوی موجودہ حکومت کے لیے کس قسم کی مشکلات اور رکاوٹوں کا سبب بن سکتے ہیں؟ اور اتحادی جماعتوں پر مشتمل حکومت کے لیے صدر کو ان کے عہدے سے ہٹانا کس قدر مشکل ہو گا؟

آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس سیاسی بحران کا کوئی بہتر حل نہیں نکلتا تو ایسے میں ایوان صدر موجودہ حکومت کے لیے درد سر بنا رہے گا۔ سپریم کورٹ کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کی تازہ مثال تو یہ ہے کہ اس وقت صدر پاکستان کی وجہ سے پنجاب کے نئے منتخب ہونے والے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز حلف بھی نہیں اٹھا سکے ہیں۔ ان کے مطابق جب وزیراعظم نے گورنر پنجاب کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی ایڈوائس صدر کو بھیجی تو انھوں نے اس پر فوری عمل نہیں کیا۔ خیال رہے کہ پنجاب کے گورنر عمر سرفراز چیمہ نے وزیراعلیٰ کے انتخاب کو تسلیم ہی نہیں کیا ہے اور اس وجہ سے انھوں نے اپنے اختیارات بھی کسی کو تفویض نہیں کیے ہیں، جس کی وجہ سے پنجاب کے نو منتخب وزیراعلیٰ ابھی اپنے حلف کے انتظار میں ہیں۔ پارلیمانی امور کے ماہر احمد بلال محبوب کے مطابق شہباز شریف کے لیے یہ صورتحال اس وجہ سے بھی زیادہ تشویشناک ہے کیونکہ ان کی بار تو صدر چیئرمین سینیٹ سے حلف لینے میں رکاوٹ نہیں بنے مگر اب ان کے فرزند حمزہ شہباز کی معاملے میں گورنر کو کسی کو حلف لینے کی اجازت بھی نہیں دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق اگر صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر فوری عمل کر دیتے تو یہ مشکل آسان ہو سکتی تھی۔ سلمان اکرم راجہ کے مطابق ویسے تو خیال یہی کیا جاتا ہے کہ صدر کا عہدہ محض ایک ’ڈاکخانہ‘ ہے مگر ان کو حاصل آئینی اختیارات پر اگر نظر دوڑائی جاتے تو وہ حکومت کے کئی ضروری معاملات کو مختصر مدت کے لیے لٹکا سکتے ہیں اور اہم فیصلوں میں تاخیر کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان کے مطابق جب صدر کو وزیراعظم یا کابینہ کی طرف سے کوئی سمری منظوری کے لیے ارسال کی جاتی ہے تو صدر پاکستان کے آفس کو آئینی طور پر اس پر فیصلے کے لیے 15 دن کا وقت دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد صدر مملکت اس سمری کو از سر نو جائزے کے لیے واپس دوبارہ وزیراعظم یا کابینہ کو بھیج سکتے ہیں۔ ان کے مطابق دوبارہ جائزے میں کم از کم ایک دن تو لگ جاتا ہے اور اگر پھر بھی وزیراعظم اور کابینہ کی سمری وہی ہو تو بھی صدر مزید دس دن تک اس پر سوچ و بچار کر سکتے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ کے مطابق یوں صدر کسی بھی معاملے کو تقریباً ایک ماہ تک تاخیر کا شکار بنا سکتے ہیں۔ ’یہ نظام میں ایک بڑا تضاد ہے۔‘ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس سیاسی بحران کا کوئی بہتر حل نہیں نکلتا تو ایسے میں ایوان صدر موجودہ حکومت کے لیے درد سر بنا رہے گا

قانون سازی میں تاخیر: سلمان اکرم راجہ کے مطابق آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت جب صدر کے پاس منظوری کے لیے کوئی بل بھیجا جاتا ہے تو وہ دس دن تک اس پر اپنی رائے دینے کا اختیار رکھتے ہیں، اور منی بل (بجٹ) کے علاوہ دس دن بعد بھی صدر پاکستان اس بل کو واپس بھیج سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں قانون سازی کی منظوری کے لیے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانا ضروری ہو جاتا ہے۔ ان کے مطابق مشترکہ اجلاس بلانے میں بھی کم از کم دس سے بارہ دن لگ جاتے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ کے مطابق تحریک انصاف کے سینیٹ میں ارکان مشترکہ اجلاس میں مزید تاخیر کا سبب بن سکتے ہیں۔ اگر سیشن منعقد ہو بھی جائے تو ایسی صورت میں بل کی سادہ اکثریت سے منظوری سے قبل وہ طویل تقریروں کے ذریعے ایسے اجلاس کو مزید طوالت دے سکتے ہیں۔یوں ایک قانون کو عملی شکل دینے میں کم از کم ایک ماہ کا وقت لگ جاتا ہے۔ سلمان اکرم راجہ کے مطابق اگر حکومت کسی اور جماعت کی ہی ہو تو پھر صدر کا عہدہ مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق اس کی بڑی وجہ ذہنی ہم آہنگی کا نہ ہونا ہوتا ہے۔ احمد بلال محبوب کے مطابق بظاہر تحریک انصاف کی مجموعی حکمت عملی یہی ہے کہ کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جائے اور جس حد تک ممکن ہو نئی حکومت کے کام میں رکاوٹ ڈالی جائے۔

حکومت کیا سوچ رہی ہے؟ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ صدر عارف علوی نے ایک متوازی انتظامیہ بنا رکھی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ گورنر پنجاب کی خدمات نئے وزیراعظم کو درکار نہیں ہیں مگر پھر بھی صدر غیرآئینی طور پر گورنر کو کام جاری رکھنے کی ہدایات جاری کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت جو صورتحال ہے اس میں صدرعارف علوی سمیت ان کے ساتھیوں کی یہ کوشش ہے کہ وہ حالات کو لاقانونیت کی طرف لے جائیں۔ عرفان صدیقی کے مطابق یہ لوگ اہم اور بڑے عہدوں پر پہنچنے کے بعد بھی اس قسم کی ذہنیت کے مالک ہیں کہ جہاں قاعدے، روایات اور اخلاقیات کو خاطر میں نہیں لایا جا رہا ہے۔ اس سوال پر کہ، کیا موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت صدر کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ اب مواخذے کا طریقہ کار باقی رہ جاتا ہے اور اس کے لیے ابھی حکومتی اتحاد کے پاس مطلوبہ اکثریت نہیں ہے۔ صدر کو ان کے عہدے سے ہٹانا کتنا مشکل ہو گا؟ قانونی ماہرین کے مطابق صدر کو آسانی سے گھر نہیں بھیجا جا سکتا ہے اور موجودہ پارٹی پوزیشنز کو دیکھتے ہوئے حکومتی جماعتوں کا صدر کا مواخذہ کرنا تقریباً ‘ناممکن’ نظر آتا ہے۔ ان کے مطابق صدر کے مواخذے کے لیے پارلیمنٹ (قومی اسمبلی اور سینیٹ) کے کل ممبران کی دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ اگر نمبر گیم پر نظر دوڑائی جائے تو پھر ایسے میں صدر کو حکومت سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس وقت قومی اسمبلی میں کل 342 نشستیں ہیں جبکہ 100 سینیٹرز ہیں، جن میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کی تعداد 26 بنتی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے کل 442 کے ارکان میں سے صدر کے مواخذے کے لیے تقریباً 296 ارکان کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس وقت حکومت کے پاس تحریک انصاف کے منحرف اراکین کو ملا کر بھی قومی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 197 تک ہی بنتی ہے۔ احمد بلال محبوب کے مطابق یہ صدر کے آفس کو حاصل آئینی تحفظ ہے جو انھیں اپنے امور کی انجام دہی کرنے میں مدد دیتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنااللہ نے گذشتہ روز نجی ٹیلیویژن چینل، جیو ٹی وی، سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہو کر اگر کسی شخص کو بخار ہو جائے اور وہ ہر چیز پر بیٹھ جائے تو پھر یہ بدقسمتی ہے۔