لاہور (ویب ڈیسک) نامور لکھاری شاہد نذیر چوہدری اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔کالا دودھ والے اور ملک چائے والے نے پکا تہیہ کر لیا تھا کہ اس لڑکے کا آج بندوبست کرکے رہیں گے۔وہ اس کی حرکتوں سے بے حد عاجز آچکے تھے مگر وہ لڑکا جانے کس مٹی سے بنا ہوا تھا۔
مغلطات اور پھٹکاریں سننے کے باوجود وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہا تھا بلکہ اس کی خودسری پہلے سے بھی بڑھ رہی تھی۔دونوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ آج وہ اس کی نانی کے پاس شکایت لے کر جائیں گے اور اسے اپنے ٹوٹے ہوئے برتنوں اور دودھ کے ضیاع کا بل بھی پیش کریں گے۔دونوں ہری شاہ روڈ کے ایک خستہ اور پرانی طرز کے مکان پر پہنچے اور دستک دی ۔ایک نحیف و نزار اور مہربان سی بزرگ خاتون نے دروازہ کھولا۔ وہ اپنے محلے کے دکانداروں سے بخوبی واقف تھیں۔ انہیں دیکھتے ہی خاتون نے مشفقانہ انداز میں خیریت پوچھی تو وہ پھٹ پڑے۔’’ماسی جی!آج ہم اپنا اڈہ چھوڑکر آپ کو صرف یہ بتانے آئے ہیں کہ آپ کے نواسے نے ہماری گاہکی خراب کر دی ہے۔ دکانوں کا ستیاناس مار دیا ہے۔اسے اگر کرکٹ کھیلنی ہے تو یونیورسٹی گراؤنڈ میں جاکر کھیلے۔بھلا محلے کی گلیوں اور سڑکوں پر کرکٹ کھیلنے کی کیا تُک ہے۔اس کی گیندیں چائے کے برتن توڑ دیتی ہیں یا پھر دودھ کے کڑاھے میں گر کر دودھ خراب کر دیتی ہیں ۔۔۔اور تو اور بعض اوقات دکان پربیٹھے گاہک بھی گیند لگنے سے زخمی ہو جاتے ہیں۔ہم کئی بار اسے سمجھا چکے ہیں مگر وہ باز ہی نہیں آتا‘‘۔وہ اپنے نواسے کے کرتوت سن کر شرمندہ ہو گئیں اور عاجزی کے ساتھ بولیں۔’’آج وہ ایک بار گھر آئے تو میں اسے پوچھوں گی۔ آئندہ آپ کو شکایت نہیں ہو گی۔ویسے آپ کا جو نقصان ہوا ،مجھے اس کا بل دے دیں، میں آپ کو رقم دے دیتی ہوں۔
‘‘’’ماسی جی!اب کیا یہ اچھا لگتا ہے کہ ہم اپنے نقصان کے پیسے آپ سے وصول کریں۔بس آپ اسے سمجھا دیں‘‘۔ملک اور کالے دودھ والے نے یکدم محلے داری کا لحاظ کرتے ہوئے جواب دیا اور واپس چلے آئے۔یہ77-76ء کا زمانہ تھا۔ لاہور میں سیاسی شورش برپا تھی مگر اندرون لاہور کی گلیوں میں سیاسی جھگڑوں سے بے پروا بچے اور جوان اپنے اپنے کھیلوں میں مگن ہوتے تھے۔ ان دنوں کرکٹ کو دنیا بھر میں گلیمرائزڈ کھیل کی حیثیت حاصل ہو رہی تھی۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم ظہیر عباس، عمران خان، میاں داد جیسے نامور کرکٹروں کی وجہ سے بڑے شہروں میں ہاکی اور فٹ بال کا طلسم ٹوٹ رہا تھا اور کرکٹ گلی گلی، محلے محلے میں اپنے پاؤں پھیلا رہی تھی۔ کم سن بچوں اور نوخیز لڑکوں کو تو کرکٹ فوبیا ہو گیا تھا۔ کرکٹ کا یہ شوق اس دور کے والدین کو گوارانہ تھا۔ مگر کرکٹ کے شیدائی گھر والوں کی مار پیٹ سے بے پروا ہو کر اس نئے کھیل میں مست رہتے تھے۔ مزنگ اڈے کی ہری شاہ روڈ گندم منڈی اور بیگم روڈ کی تنگ و تاریک اور تعفن زدہ گلیوں میں بھی نابالغ لڑکوں نے کرکٹ کو رواج دے رکھا تھا جو سہرپہر سے پہلے ہی اپنے اپنے مورچوں پر براجمان ہو جاتے۔ ان کے پاس کھیلنے کے لئے بہترین کرکٹ بیٹ تھے نہ چمڑے کی گیندیں ۔انہیں جیسے بھی بلے اور گیندیں میسر ہوتے وہ انہی سے گزارا کرلیتے۔وسیم کی عمر ان دنوں دس برس تھی۔ وہ ایک دبلا پتلا اور دراز قد و قامت کا لڑکا تھا مگراس کی باؤلنگ کے انداز اور حیران کن حد تک تیز بال نے اسے علاقے کے نوجوانوں میں مقبول بنا دیا
تھا۔ہر ایک ٹیم کی کوشش ہوتی کہ وسیم ان کی طرف سے کھیلے،وہ اپنی پذیرائی اور مقبولیت سے بے پروا ہو کر کھیلتا تھا۔ مگر اس کے جارحانہ کھیل کی وجہ سے محلے والوں کو شکایات لاحق ہو رہی تھیں۔اس روز وسیم جب گھر پہنچا تو نانی نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کے خوب کان مروڑے۔’’کیا میں نے تجھے اس لئے یہاں رکھا ہوا ہے کہ تو مجھے محلے والوں سے ذلیل کراتا پھرے۔؟تجھے پہلے بھی کئی بار کہہ چکی ہوں کہ یہ موئی کرکٹ چھوڑ دے اور پڑھائی پر توجہ دے۔مگر تو باز ہی نہیں آتا۔ مجھے بتا تو چاہتا کیا ہے‘‘؟وسیم کے پاس اپنے بچاؤ کی کوئی دلیل نہیں تھی۔ اسے معلوم ہو چکا تھا کہ آج محلے کے دکانداروں نے نانی سے اس کی شکایت کی ہے۔ اس نے اپنے بچاؤ کے لئے حسب عادت نانی کے گلے میں بازو ڈال دئیے اور لہک کر بولا:’’نانی اماں!آئندہ شکایت نہیں ہو گی‘‘۔’’دیکھو وسیم!تیری ماں بڑی سخت ہے۔ اسے جب معلوم ہو گیا کہ تو پڑھائی کے بجائے صرف کرکٹ کا ہو گیا ہے تو تیرا کیا ہو گا ۔ میرے لاڈلے!میں یہ نہیں کہتی کہ تو کرکٹ نہ کھیل مگرترے لئے پڑھائی بھی ضروری ہے۔تیرے باپ نے تجھے بڑا افسر بنانے کے لئے ہی اتنے اچھے اسکول میں داخل کرایا ہے اور اس وجہ سے تو یہاں میرے پاس رہ رہا ہے‘‘۔نانی اماں نے وسیم کو راہ راست پر لانے کے لئے بہت سمجھایا مگر وسیم نے تمام نصیحتیں ایک کان سے سنیں اور دوسرے سے باہر نکال دیں۔وہ حسب معمول اپنے ہی انداز میں انہی گلیوں میں کرکٹ کھیلتا رہا۔
وسیم کے ماں باپ ماڈل ٹاؤن (لاہور)میں مقیم تھے۔ اس کے دو بڑے بھائی ندیم اور نعیم اور چھوٹی بہن صوفیہ ماں باپ کے پاس ہی رہتے تھے۔ وسیم کے والدین بڑے دو بیٹوں کے بعد توقع رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں بیٹی عطا کرے گا مگر خدا نے انہیں نصیبوں والا بیٹا عطا کر دیا اور اس کے بعد بیٹی سے نوازا۔ وسیم کے والد نے بہترین تعلیم کے لئے اسے کیتھڈرل چرچ اسکول لاہور میں داخل کرادیا تھا جو ماڈل ٹاؤن سے بہت دور تھا۔ لہٰذا اسے نانی اماں کے ہاں منتقل ہونا پڑا کیونکہ یہ اسکول ان کے گھر سے فقط پانچ منٹ کی پیدل مسافت پر تھا۔مزنگ منتقل ہونے سے پہلے وسیم ماڈل ٹاؤن میں ٹیبل ٹینس کھیلنے کا شوقین تھا۔اسے پتنگ بازی اور کبوتر بازی کی بھی لت تھی۔ لہٰذا جب اسے نانی کے پاس بھیجا گیا تو اس کی والدہ نے خاص طور پر اپنی ماں سے کہا:’’اماں !وسیم کھیلوں کا بڑا شوقین ہے۔آپ اس کی نگرانی کرنا۔ایسا نہ ہو سارا دن گلیوں میں آوارہ گردی کرتا پھرے‘‘۔مگر نانی اماں وعدے کے باوجود اپنے نواسے کو گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر تک محدود نہ کر سکیں۔وہ پڑھائی کم اور کھیل زیادہ کھیلتا تھا۔ جلد ہی وہ اسکول میں کرکٹ اور ٹیبل ٹینس دونوں کا کپتان بن گیا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وسیم اکرم بے استاد ہونے کے باوجود بہت اچھا کھلاڑی ثابت ہو رہا تھا۔ اسے اس کی انگریزی کے استاد نے نصیحت کی کہ وہ صرف ایک کھیل پر توجہ دے جو صرف کرکٹ ہونا چاہئے۔کیونکہ وہ بہترین آل راؤنڈر بن سکتا ہے۔وسیم پر اس استاد کی نصیحت نے اثر کیا اور اس نے اپنی تمام توجہ کرکٹ پر مرکوز کر دی۔