سابق صدر ممنون حسین نے عمران خان سے حلف نہ لینے کا مطالبہ کیوں نہ مانا ؟ حیران کن حقائق منظر عام پر

لاہور: (ویب ڈیسک) فاروق عادل لکھتے ہیں کہ” وزیر اعظم شہباز شریف کی تقریب حلفِ برداری کے موقع پر صدر مملکت عارف علوی علیل ہو گئے تھے۔ ایوان صدر میں معمول کے مطابق ہلکی پھلکی سرگرمیوں میں سارا دن مصروف رہنے والی شخصیت کی علالت کی خبر پر کئی سوالات اٹھائے گئے لیکن سنجیدہ حلقوں نے انھیں شک کا فائدہ بھی دیا۔

اس سے قبل خیبر پختونخوا کے گورنر شاہ فرمان یہ کہہ کر مستعفی ہوئے تھے کہ وہ شہباز شریف کو وزیر اعظم کا پروٹوکول نہیں دے سکتے۔ ان کے بعد سندھ کے گورنر سندھ عمران اسماعیل نے بھی کچھ اسی قسم کے عذر کے بعد استعفیٰ دیا تھا۔ آج صبح ایک مرتبہ پھر صدر عارف علوی نے علالت کے باعث وفاقی کابینہ سے حلف نہیں لیا اور ان کی جگہ یہ فریضہ ایک مرتبہ پھر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ادا کیا ہے۔ اس انکار کے بعد ان کی اچانک علالت کے بارے میں پرانی قیاس آرائیوں کو ایک بار پھر تقویت ملی ہے کہ یہ معاملہ علالت کا نہیں، سیاست کا ہے۔ سیاسی اختلاف کی وجہ سے آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے پہلو تہی سال 2018 کے انتخابی نتائج کی یاد دلاتی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں، خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ ن نے ان نتائج کو مسترد کر دیا تھا۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے کہ جیسے جیسے پی ٹی آئی کی حکومت سازی کے دن قریب آتے گئے، ایوان صدر پر ایک نامعلوم سا دباؤ بڑھتا چلا گیا۔ اس دباؤ کی ابتدا چند خبروں کی اشاعت سے ہوئی۔ ذرائع ابلاغ پر اس قسم کی خبریں آنے لگیں کہ مسلم لیگ ن نے فیصلہ کیا ہے کہ آئینی مناصب پر فائز اس سے تعلق رکھنے والی تمام شخصیات، خاص طور پر صدر اور گورنر صاحبان مستعفی ہو جائیں گے۔ ان خبروں کے سامنے آنے پر پہلا تاثر یہی بنا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت میں سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس وقت کے صدر ممنون حسین عمران خان سے حلف نہ لیں۔

اس وقت کا یہ اہم ترین سوال تھا جس کی تصدیق کے لیے صحافیوں کی بہت بڑی تعداد نے ایوان صدر سے رابطہ کیا۔ میں ان دنوں ایوان صدر سے وابستہ تھا اور ذرائع ابلاغ کے علاوہ ادب و ثقافت اور انسانی حقوق کے معاملات میرے سپرد تھے۔ اس طرح کی پیچیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے صدر مملکت ممنون حسین مجھے پہلے ہی اپنے موقف سے آگاہ کر دیا کرتے تھے۔ ان ہی معلومات کی بنیاد پر ابتدا میں تو میں نے معمول کے مطابق یہ سوالات نمٹا دیے لیکن یہ سلسلہ دراز ہوا تو میں نے ضروری سمجھا کہ صدر مملکت کو اس صورتحال سے ضرور آگاہ کرنا چاہیے۔ صدر ممنون حسین نے تفصیل سے پوری بات سُنی اور مسکراتے ہوئے کہا: ’یہ منصب امانت ہے۔ میں نے اس کی خواہش کی تھی اور نہ اس کے ساتھ چمٹے رہنے کی خواہش ہے۔ لیکن یہ منصب اس لیے چھوڑ دیا جائے تاکہ ایک بحران پیدا ہو جائے یا ایک سیاسی مخالف کے حلف میں رکاوٹ پیدا کی جا سکے، یہ میری تربیت کے بھی خلاف ہے اور میرے جمہوری تصورات کے بھی۔‘ بات ختم ہو گئی۔ ذرائع ابلاغ بھی کسی حد تک مطمئن ہو گئے لیکن ایک، دو روز کے بعد ایک نیا واقعہ رونما ہو گیا۔ سندھ کے گورنر محمد زبیر مستعفی ہو گئے۔ گورنر زبیر کے استعفے کے بعد ان خبروں میں مزید تیزی پیدا ہوئی اور مسلم لیگ ن کی صفوں میں بھی یہ احساس جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا کہ اب ہمیں آئینی مناصب چھوڑ دینے چاہییں۔ اس تاثر کا پہلا ٹھوس ثبوت چند ملاقاتوں نے فراہم کیا۔ گورنر پنجاب محمد رفیق رجوانہ اور گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا نے صدر ممنون حسین سے ملاقات کی۔ صدر ممنون حسین نے مجھے بتایا کہ اس ملاقات میں ان کے سامنے مشترکہ طور پر ایک سوال اٹھایا گیا۔ ان لوگوں کا کہنا تھا: ’ایسے انتخابات کے بعد جو متنازع بھی ہیں اور جن کے نتائج بھی ہم تسلیم نہیں کرتے، مناسب نہیں ہو گا کہ ان کے بعد ہم اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جائیں؟‘

صدر ممنون حسین نے اس سوال کے جواب میں کہا: ’اگرچہ یہ آئینی مناصب ہیں اور انھیں سنبھال کر ہم پارٹیوں سے بلند ہو گئے ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری یہ پوزیشن پارٹی کی امانت ہے لہٰذا ہمیں کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے منصب کے تقاضے اور پارٹی کے مفاد دونوں کا خیال رکھنا چاہیے۔‘ سابق گورنر سندھ اور پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما محمد زبیر نے اس واقعے کی مجھے کچھ زیادہ تفصیل بتائی۔ وہ کہتے ہیں: ’یہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کی تجویز تھی کہ ان متنازع انتخابات کے بعد گورنروں کو ایک ساتھ مستعفی ہونا چاہیے اور اس کا اعلان ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کرنا چاہیے تاکہ دباؤ بڑھایا جا سکے۔‘ محمد زبیر بتاتے ہیں: ’اسی دوران یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ مستعفی ہونے والوں میں صدر مملکت کو بھی شامل ہونا چاہیے۔‘ وہ کہتے ہیں: ’اس تجویز کے سامنے آنے پر میں نے ایوان صدر کے ساتھ کوارڈینیشن کی جس کے نتیجے میں صدر ممنون حسین سے میرے علاوہ گورنر رفیق رجوانہ اور گورنر اقبال ظفر جھگڑا کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں تمام لوگوں کی اپنی اپنی رائے تھی، اس لیے ہمارے درمیان کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ جہاں تک میرا معاملہ ہے، میں مستعفی ہونے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ میں نے اپنے اس فیصلے سے شہباز شریف صاحب کو آگاہ کر دیا اور انتخابات سے اگلے روز کراچی جا کر استعفیٰ دے دیا۔‘ استعفے کے معاملے پر ان چار بڑوں (صدر مملکت اور تین گورنر) کے درمیان اگر اتفاق نہیں تھا تو اختلاف کی نوعیت کیا تھی؟ میرے اس سوال پر محمد زبیر نے کہا: ’ہر ایک کا اپنا نقظہ نظر تھا لیکن یہ اتفاق تھا کہ سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے پورا (جمہوری) نظام ہی منہدم ہو جائے۔‘ کیا عمران خان سے حلف نہ لینے کی بھی تجویز تھی؟ ’قطلعاً! نہیں۔‘ محمد زبیر نے دو ٹوک جواب دیا۔ صدر مملکت اور گورنروں کے درمیان نظام کی حفاظت کے سلسلے میں اتفاق رائے کے باوجود ایوان صدر پر دباؤ بڑھتا گیا اور اس سلسلے میں خبروں کی اشاعت میں بھی تیزی پیدا ہوئی۔ یہ صورتحال پیدا ہوئی تو صدر ممنون حسین نے ایک ملاقات میں کہا: ’اب اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ میاں صاحب (نواز شریف) کی رائے حاصل کی جائے۔‘ اب سوال پیدا ہوا کہ میاں نواز شریف کی رائے کیسے حاصل کی جائے؟

معمول کی صورتحال میں یہ بہت آسان تھا۔ ایک ٹیلی فون سے مسئلہ حل ہو جاتا۔ نواز شریف معزولی سے قبل ویسے بھی مہینے میں ایک یا دو بار ایوان صدر آ کر صدر مملکت سے ملاقات کیا کرتے تھے، اس لیے رابطے رہتے تھے۔ ایک بار کسی سماجی تقریب میں شرکت کے لیے خود صدر مملکت وزیر اعظم ہاؤس بھی جا چکے تھے۔ معمول کے حالات میں یہ سب راستے اختیار کیے جا سکتے تھے لیکن یہ معمول کے حالات نہیں تھے۔ میاں نواز شریف اڈیالہ جیل میں تھے اور صدر مملکت کا ذاتی حیثیت میں ان سے رابطہ ممکن نہیں رہا تھا۔ ان دنوں صورتحال کچھ ایسی بن چکی تھی کہ صدر مملکت اور حکومت جو قدم بھی اٹھاتے بہت سوچ سمجھ کر اٹھاتے۔ اس احتیاط کی ایک وجہ اور بھی تھی۔ اڈیالہ میں نظر بندی کے زمانے میں میاں نواز شریف کی طبیعت بگڑی تو انھیں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) میں داخل کرایا گیا۔ صدر ممنون حسین نے ان کی عیادت کے لیے جانے کی کوشش کی تو کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ ان کے لیے جانا ناممکن ہو گیا۔ اس تجربے کے بعد وہ کچھ زیادہ محتاط ہو چکے تھے۔ اب مسئلہ یہ آن پڑا کہ رابطے کے لیے کیا راستہ اختیار کیا جائے۔ کچھ سوچ کر انھوں نے مجھے مخاطب کیا اور کہا: ’فاروق صاحب! میں جانتا ہوں کہ ان بکھیڑوں سے آپ کا کوئی تعلق نہیں لیکن اب مجبوری ہے، آپ کے سوا کوئی اور یہ کام نہیں کر سکتا۔‘ یہ کہہ کر وہ میری جانب دیکھنے لگے۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو کہا: ’آپ فوری طور پر مشاہد اللہ خان سے ملیے اور میری طرف سے انھیں کہیے کہ وہ جیل جا کر میاں صاحب سے ملاقات کریں اور انھیں ساری صورتحال سے آگاہ کر کے ان کی رائے اور مشورے سے مجھے آگاہ کریں۔‘ مشاہد اللہ خان کی ایک دو روز میں میاں نواز شریف سے ملاقات ہو گئی۔ مشاہد اللہ خان مرحوم بڑے رکھ رکھاؤ والے وضع دار آدمی تھے۔ شاعری اور نثری ادب کے گہرے مطالعے نے ان کے مزاج میں شگفتگی پیدا کر دی تھی۔

وہ بات اس طرح کرتے کہ سارا منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا۔ انھوں نے مجھے بتایا: ’میاں صاحب سے رسمی دعا سلام کے بعد جب میں نے اصل بات شروع کی تو ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر نہایت سنجیدگی سے انھوں نے میری بات سُنی۔ میری بات مکمل ہونے کے بعد بھی وہ چند لمحے خاموش رہے۔ اس وقت گہری سنجیدگی اور غور و فکر کے آثار ان کے چہرے پر دیکھے جا سکتے تھے۔ کچھ دیر کے بعد سر اٹھا کر میری جانب دیکھا اور پنجابی میں کہا: ’مشاہد صاحب! صدر صاحب نوں میری طرفوں پیغام دے دیو۔‘ پیغام کا لب لباب یہ تھا کہ کسی دباؤ میں آنے کی ضرورت نہیں۔ ممنون صاحب سے کہیں وہ جو بھی فیصلہ کریں اپنے ضمیر کی آزادی اور جمہوری قدروں کے مطابق کریں۔ ‘جہاں تک میرا معاملہ ہے۔۔۔’ میاں نواز شریف نے لحظہ بھر خاموشی کے بعد کہا: ’میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ سیاسی اختلاف کو آئین، قانون اور جمہوریت پر ترجیح دی جائے، لہٰذا نہ میں ممنون صاحب کے استعفے کے حق میں ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ کسی کا حلف لینے سے انکار کیا جائے۔‘ میاں نواز شریف کے اس پیغام کے بعد پراپیگنڈے کا طوفان تو تھم گیا لیکن اِکا دُکا خبریں پھر بھی شائع ہوتی رہیں۔ عمران خان سے حلف لینے کے بارے میں صدر ممنون حسین کے ذہن میں پہلے بھی کوئی ابہام نہیں تھا لیکن اس پیغام کے بعد تو مطلع بالکل صاف ہو گیا۔ صدر ممنون حسین نے صرف عمران خان سے حلف نہیں لیا، ان کی کابینہ سے بھی لیا۔ بعد ازاں عارف علوی صدر منتخب ہوئے تو صدر ممنون حسین نے ان کی تقریب حلف برداری میں بھی شرکت کی۔