ایک دن ایک درویش خواجہ عبدالخالق غجدوانیؒ کے روبر وکہنے لگا کہ اگر خداوند تعالیٰ مجھے جنت یا دوزخ میں جانے کا مختار بنا دے تو میں دوزخ میں جانے کو پسند کروں گا۔ کیونکہ میں نے تمام عمر اپنے نفس کی خواہش کی مخالفت کی ہے اور اس صورت میں یقینا میرے نفس کی خواہش ہوگی
کہ وہ بہشت میں جائے اور دوزخ میں جانا خداوند تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوگا۔خواجہ نے اس درویش کی بات کو رد کیا اور فرمایا کہ بندے کو اپنے اختیار سے کیا کام وہ جہاں جانے کا حکم دے گا وہاں ہم جائیں گے اور جہاں فرمائے گا کہ یہاں رہو وہاں رہیں گے۔ یہ نہیں جو تم کہتے ہو۔“اس درویش نے کہا کہ شیطان کو سالک پر کچھ قابو ہے یا نہیں۔“خواجہ نے جواب دیا ”اسے سالک پر اس کو قابو ہے جو فنائے نفس کی حد تک نہ پہنچا ہو۔ جب ایسے سالک کو غصہ آتا ہے تو شیطان اس پر قابو پالیتا ہے لیکن ایسا سالک جو فنائے نفس کی حد تک پہنچ گیا ہے، شیطان سے مغلوب نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ایسے سالک کو غصہ نہیں آتا بلکہ اس کو غیرت ہوتی ہے اور جہاں غیرت ہے وہاں سے شیطان بھاگتا ہے اور یہ وصف ایسے شخص کے لیے مسلم ہے جو خدا کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ اس کے دائیں ہاتھ میں کتاب الہٰی ہوتی ہے اور بائیں ہاتھ میں وہ سنت رسول ﷺ کو لیے ہوتا ہے اور ان دونوں روشنیوں میں وہ راستہ طے کرتا ہے۔“