لاہور(ویب ڈیسک) آپ نے دنیا بھر میں نئی نئی عمارتوں کے بارے میں تو سن رکھاہوگا،کبھی یہ ریکارڈ امریکہ کے پاس تھا لیکن پھر دیگر ممالک اس دوڑ میں شامل ہوئے ، کبھی ملائیشیا توکبھی چین اور کبھی متحدہ عرب امارات اس ریکارڈ کوحاصل کرلیتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ 131 سالوں میں بننے والی دنیا کی بلند ترین عمارتیں
کونسی ہیں اور ان کی اونچائی کتنی ہے؟ نہیں! تو آئیں ہم آپ کو آج اپنی اس اسٹوری میں اس حوالے سے انتہائی دلچسپ معلومات دیتے ہیں۔ پنسلوانیا میں 1901میں وجود میں آنیوالے فلاڈیلفیا سٹی ہال کوا سکاٹش نژاد ماہر تعمیرات جان میک آرتھر جونیئر اور تھامس اسٹک والٹر نے سیکنڈ ایمپائر اسٹائل میں ڈیزائن کیا ۔167میٹر اونچی اس شاندار عمارت کی تعمیر کا آغاز1871 کو ہوا اور 1901 کو تعمیرات مکمل ہوئیں۔ اس وقت اس کی تعمیرات پر آنے والی لاگت 24 ملین ڈالر کے قریب تھی۔ امریکا کے شہر نیو یارک میں 1902 کو قائم ہونیوالی 170 میٹر اونچی سنگر بلڈنگ جسے سنگر ٹاور بھی کہا جاتا ہے۔ نیویارک شہر کے مین ہٹن میں ایک دفتری عمارت اور قدیم فلک بوس عمارت تھی۔ سنگر کمپنی کے لیڈر فریڈرک گلبرٹ بورن نے اس عمارت کا کام شروع کیا، جسے آرکیٹیکٹ ارنسٹ فلیگ نے 1897 سے 1908 تک متعدد مراحل میں ڈیزائن کیا۔ عمارت کے فن تعمیر میں بیوکس آرٹس اور فرانسیسی سیکنڈ ایمپائر اسٹائل کے عناصر شامل تھے۔ میٹ لائف ٹاور بھی امریکا کے شہر نیویارک میں 1908میں قائم ہونے والا ایک شاہکار تھا۔190 میٹر اونچی یہ عمارت نیو یارک شہر کے میڈیسن اسکوائر پارک کے قریب واقع ہے۔ تعمیراتی مہارت کی نئی مثالیں قائم کرنے والی یہ عمارت بھی نیویارک کے قلب میں قائم ہوئی۔241 میٹر اونچی یہ عمارت 1910 کو وجود میں آئی۔ 40 وال اسٹریٹ، جسے ٹرمپ بلڈنگ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نیویارک شہر میں مین ہٹن کے فنانشل ڈسٹرکٹ میں ناساؤ اور ولیم کی سڑکوں کے درمیان وال اسٹریٹ پر 927 فٹ یا 283 میٹر اونچی فلک بوس عمارت تھی جو 1930 میں تعمیر ہوئی۔
1930میں ہی نیویارک میں بننے والی 319 میٹر اونچی کرسلر بلڈنگ فن تعمیر کا ایک نیا شاہکار بن کر سامنے آئی۔ یہ عمارت نیو یارک سٹی کے مشرق میں مڈ ٹاؤن مین ہٹن میں 42 ویں اسٹریٹ اور لیکسنگٹن ایونیو کے چوراہے پر واقع ہے۔ 1931 کو دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی یہ 102 منزلہ 443 میٹر طویل ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ نیویارک میں بنی جس کا نام ایمپائر اسٹیٹ سے لیا گیا۔ امریکا کے شہر نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے تو سبھی واقف ہیں، فن تعمیر کا یہ 527 میٹر طویل شاندار نمونہ 4 اپریل 1971 کو وجود میں آیا اور 2001 میں 11 ستمبر کے دہشت گرد حملوں کے دوران تباہ ہو گیا تھا۔ 1973 کو اپنی شاندار تعمیرات سے دنیا کو حیران کرنیوالا شکاگو کا ولس ٹاور یا سئیرز ٹاور 108 منزلوں پر محیط ہے جس کی اونچائی 442 میٹر ہے۔ ملائشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں واقع پیٹرو ناس ٹاورز جسے پیٹروناس ٹوئن ٹاورز اور کے ایل سی سی ٹوئن ٹاورز کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، 88 منزلہ، 452 میٹر اونچی فلک بوس عمارت ہے جس کودنیا کی سب سے اونچی جڑواں فلک بوس عمارت سمجھا جاتا ہے۔ 2004 میں وجود میں آنے والی 508 میٹر اونچی تائی پے101 کو 2009 تک دنیا کی سب سے بڑی عمارت کا اعزاز حاصل رہا۔ تائیوان کی یہ عمارت تائپے ورلڈ فنانشل سینٹر کے نام سے بھی مشہور تھی۔ 2010 کو دنیا کے نقشے پر سب سے طویل عمارت کا اعزاز حاصل کرنے والا دبئی کا 828 میٹر اونچا برج خلیفہ 163 منزلوں پر محیط ہے۔
ڈیڑھ ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والی اس عظیم الشان عمارت کا کام 2004 میں شروع ہوا اور 5 سال کی محنت کے بعد 2009 میں مکمل ہوا۔ جدہ ٹاور جو پہلے کنگڈم ٹاور کے نام سے جانا جاتا تھا، ایک فلک بوس عمارت تعمیراتی منصوبہ ہے جو اس وقت تعطل کا شکار ہے۔ سعودی عرب کے شمال میں واقع، یہ انسانی تاریخ کی پہلی 1 کلومیٹر (3281 فٹ) یا 1008 میٹر اونچی عمارت جدہ اکنامک سٹی کے نام سے مشہور ہے جسے تعمیر و ترقی اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز قرار دیا جاسکتا ہے۔ دبئی نے 2022 میں 1345 میٹر اونچے دبئی کریک ٹاور کی تعمیر مکمل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے یہ منصوبہ بھی تاحال تعطل کا شکار ہے۔ اس ٹاور کی ابتدائی لاگت 3 اعشاریہ67 بلین درہم ہے تاہم کورونا کے بعد تعمیراتی کام کے آغاز پر لاگت میں بھاری بھرکم اضافے کا خدشہ ہے۔