پاکستان میں صدر اور وزیر اعظم اہم تقاریب میں شیروانی کیوں پہنتے ہیں؟ دلچسپ معلامات منظر عام پر

لاہور: (ویب ڈیسک) وطن عزیز میں صدر اور وزیر اعظم سمیت ہر اہم سیاسی شخصیت شیروانی زیب تن کرکے حلف اٹھاتا ہے۔ اس حوالے سے یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے کہ کیا یہ ضروری بھی ہے۔ رواں برس مارچ اور اپریل کا مہینہ ملکی سیاست میں خاصا ہنگامہ خیز رہا۔
تحریک انصاف کی حکومت ان کے مخالف سیاسی اتحاد کی کوششوں سے ختم ہوئی۔ ان تمام حالات و واقعات کے دوران تحریک انصاف کے رہنما اور ان کے اہم ترین سیاسی اتحادی شیخ رشید شہباز شریف کو نشانہ بناتے ہوئے یہ کہتے رہے کہ جو اچکن (شیروانی) انہوں نے سلوائی ہے وہ کبھی پہن نہیں پائیں گے۔ پاکستان کا قومی لباس شلوار قمیض ہے اور یہ عوامی سطح پر بھی مقبول اور ہردلعزیز ہے لیکن وطن عزیز میں صدر ، وزیر اعظم اور صوبائی گورنر اہم قومی تقریبات خاص طور پر حلف برداری کے موقع پر شیروانی زیب تن کرتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں شیروانی صدیوں پرانا لباس ہے، مورخین اور پہناوؤں کی تاریخ سے واقف شخصیات کا کہنا ہے کہ صدیوں پہلے مصر کے مسلم مملوک معززین اور شاہی حکام شیروانی سے ملتا جلتا لباس پہنتے تھے۔ مصر اور شام سے ہی یہ لباس برصغیر آنے والے افراد اپنے ساتھ لے کر آئے، کئی صدیوں کے دوران ہونے والی تبدیلیوں کے بعد شیروانی موجودہ حالت میں ہمارے سامنے ہے۔ قیام پاکستان سے قبل برصغیر پاک و ہند میں شیروانی بلا تفریق رنگ و نسل معززین کا پہناوا تھی۔ آج بھی اہم تقاریب میں شیروانی ہی لوگوں کی پہلی پسند ہوتی ہے۔ تحریک آزادی کے دوران اور قیام پاکستان کے بعد بابائے قوم قوم قائد اعظم محمد علی جناح اہم تقاریب میں شیروانی ہی پہنا کرتے تھے۔ بطور گورنر جنرل پاکستان انہوں نے شیروانی پہن کر ہی حلف اٹھایا تھا۔ اس لئے ملک میں کوئی بھی بھی نظام نافذ ہو یا کوئی بھی حکمران مسند اقتدار پر بیٹھے وہ شیروانی پہن کر ہی حلف اٹھاتا ہے۔ تاہم پاکستانی کی حالیہ تاریخ میں شاہد خاقان عباسی وہ واحد وزیر اعظم ہیں جنہوں نے شیروانی کے بجائے شلوار قیمض اور واسکٹ پہن کر حلف اٹھایا تھا۔ وطن عزیز میں صدر اور وزیر اعظم سمیت ہر اہم سیاسی شخصیت شیروانی زیب تن کرکے حلف اٹھاتا ہے۔ شیروانی نہ پہہنے سے متعلق شاہد خاقان عباسی کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ شیروانی قانونی ضرورت نہیں، اور وہ شلوار قمیض اور واسکٹ میں خود کو زیادہ آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔