وقت سے پہلے انتخابات!!!!! 90 دن میں انتخابات کروانے کا الیکشن کمیشن کے پاس کیا راستہ ہو سکتا ہے؟ چشم کشا حقائق منظر عام پر

لاہور: (ویب ڈیسک) عمر دراز ننگیانہ لکھتے ہیں کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی اور نئے وزیر اعظم کے حلف اٹھانے کے بعد بھی عام انتخابات کی باز گشت جاری ہے جس کی ایک بڑی وجہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کا یہ مطالبہ ہے کہ فوری طور پر الیکشن کروائے جائیں۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے تین اپریل کو اعلان کیا تھا کہ انھوں نے صدر عارف علوی کو اسمبلیاں تحلیل کرنے اور عام انتخابات کروانے کی تجویز دے دی ہے جس سے پہلے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ڈپٹی سپیکر نے مسترد کر دیا تھا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے اس رولنگ کو کالعدم قرار دیا جس کے نتیجے میں اسمبلی توڑنے کا عمل بھی غیر آئینی قرار پایا۔ 11 اپریل کو جب ایک طرف نئے وزیر اعظم شہباز شریف منتخب ہو چکے تھے تو تحریک انصاف چیئرمین عمران خان نے ٹوئٹر پر پیغام میں کہا کہ ’ہم فوری انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں کیونکہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے عوام کو فیصلے کا موقع دیا جائے کہ وہ کسے اپنا وزیراعظم منتخب کرنا چاہتے ہیں۔‘ مسلم لیگ ن کا البتہ موقف ہے کہ اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرے گے۔ دوسری طرف تحریک انصاف چیئرمین اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کر چکے ہیں اور عوامی اجتماعات کے ذریعے حکومت پر دباو ڈال سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو یہ بیان دے چکے ہیں کہ عام انتخابات سے قبل الیکشن اصلاحات بھی ضروری ہیں لیکن اب تک اس معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی اور نہ ہی ان مجوزہ اصلاحات کا کوئی خد و خال سامنے آیا ہے۔
الیکشن کمیشن کتنی جلدی الیکشن کروا پائے گا؟ ایسے میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر کسی صورت عام انتخابات کروانے کا فیصلہ ہو بھی جائے تو الیکشن کمیشن کتنی جلدی الیکشن کروا پائے گا کیوں کہ حال ہی میں پاکستان کے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ ملک میں عام انتخابات کم از کم سات ماہ سے قبل نہیں ہو سکتے کیوں کہ صرف انتخابی حد بندیوں کے لیے اضافی چار ماہ درکار ہیں۔ پاکستان میں انتخابات کے لیے ذمہ دار ادارے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس سے پہلے ایک خط کے جواب میں صدرِ پاکستان کو اس بات سے آگاہ کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ جب تک نئی حلقہ بندیاں نہ ہوں، انتخابات صاف اور شفاف نہیں ہو سکتے۔ صدرِ پاکستان عارف علوی کی طرف سے حال ہی میں الیکشن کمیشن کو ایک خط لکھا گیا تھا جس میں صدر نے کمیشن سے 90 دن کے اندر انتخابات کروانے کے لیے تاریخ تجویز کرنے کو کہا تھا۔ صدر کی طرف سے یہ خط قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے چند روز بعد لکھا گیا تھا۔ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جوابی خط کے ذریعے صدر کو آگاہ کیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت صاف اور شفاف انتخابات کروانے کے لیے اسے رواں برس اکتوبر تک کا وقت چاہیے۔ سات ماہ کا وقت مانگنے کی بڑی وجہ الیکشن کمیشن نے یہ بتائی ہے کہ اسے آبادی کے نئے تخمینے کے حساب سے نئے انتخابی حلقوں کے لیے حلقہ بندیاں کرنے کی ضرورت ہے۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ ’آئین اور الیکشن کے قوانین کے مطابق نئے حلقے کی حد بندی الیکشن کروانے کے لیے بنیادی قدم ہے۔‘ تاہم انتخابی امور کے ماہر اور سابق سکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی تجویز میں صدارتی ریفرنس کے ذریعے الیکشن کمیشن کو پرانی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر ‘ایمرجنسی’ انتخابات کروانے کا اختیار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس ایک مسئلے کے علاوہ قومی اسمبلی کی نشستوں میں کمی کے بعد صوبہ خیبرپختونخوا میں نئی حلقہ بندیوں کی ضرورت اور انتخابات کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کا معاملہ بھی جلد انتخابات منعقد کرانے کی راہ میں حائل ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا ان تمام قانونی، آئینی اور تکنیکی مسائل کے باوجود الیکشن کمیشن کے پاس کوئی ایسا راستہ ہے کہ وہ 90 دن میں الیکشن کروا پائے؟
نئی حلقہ بندیاں کیوں نہیں ہو پائیں؟ ایڈیشنل سکریٹری الیکشن کمیشن منظور اختر کی طرف سے صدر کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 51(5) اور الیکشن قوانین 2017 کے سیکشن 17 کے مطابق نئی حلقہ بندیاں آبادی کی اس آخری مردم شماری کی بنیاد پر کی جاتی ہیں جو سرکاری طور پر شائع کی جا چکی ہو۔ الیکشن کمیشن نے صدر کو بتایا ہے کہ سنہ 2017 میں ہونے والی چھٹی مردم شماری کے عبوری نتائج جنوری 2018 میں شائع کیے گئے تھے۔ ان عبوری تنائج کے مطابق الیکشن کمیشن نے اُس سال ہونے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے لیے حلقہ بندیاں کی تھیں لیکن یہ ایک وقت کے لیے دی گئی رعایت تھی جو آئین کے آرٹیکل 51(5) میں ترمیم کے ذریعے ملی تھی۔ کمیشن کا کہنا تھا کہ مردم شماری کے حتمی نتائج کی اشاعت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیوں کے لیے آئینی ضرورت ہے۔ الیکشن کمیشن نے خط میں لکھا کہ کمیشن نے اپنی طرف سے مردم شماری کی حتمی فہرستوں کی سرکاری طور پر اشاعت کے لیے کوششیں کیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ‘اس کے لیے چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے مئی 2020 میں وزیرِ اعظم کو خط لکھا گیا۔ اسی طرح مئی 2020 سے لے کر جنوری 2021 تک قانون اور پارلیمانی امور کی وزارتوں کو پانچ مرتبہ علیحدہ علیحدہ خطوط لکھے گئے۔’ الیکشن کمیشن کے مطابق اس کے علاوہ دو خطوط ادارۂ شماریات اور ایک خط قومی اسمبلی اور سینیٹ کے سکریٹریز کو بھی لکھے گئے لیکن یہ اشاعت وقت پر نہیں ہو پائی۔ ‘صدارتی ریفرنس کے ذریعے پرانی حلقہ بندیوں پر الیکشن ممکن ہے‘ تاہم انتخابی امور کے ماہر اور سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس صورتحال میں وہ یہ تجویز دیں گے کہ اگر انتخابات کروانا پڑ جائیں تو اس کے لیے ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ ‘اگر صدر ایک آرڈیننس جاری کر دیں کہ انتخابات سنہ 2018 کے انتخابات والی پرانی حلقہ بندیوں کے مطابق کروا لیے جائیں تو قانونی طور پر الیکشن کمیشن کو اختیار مل جائے گا اور وہ الیکشن کروا سکتے ہیں۔’
فاٹا کے خاتمے پر قومی اسمبلی کی چھ نشستوں میں کمی: صدر کو لکھے گئے خط میں الیکشن کمیشن نے ایک اور آئینی مسئلے کی طرف ان کی توجہ مبذول کروائی ہے۔ یہ مسئلہ سابقہ فاٹا یعنی قبائلی علاقوں کا 25ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کا ہے۔ ان علاقوں کے خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں چھ نشتیں کم ہو گئی ہیں یعنی قومی اسمبلی کی کل نشستیں 272 سے کم ہو کر 266 رہ گئی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق اس کی وجہ سے خیبرپختونخوا میں نئی حلقہ بندیاں کرنے کی ضرورت تھی تاہم یہ حلقہ بندیاں اس لیے نہیں کی جا سکیں کیونکہ ادارۂ شماریات نے مردم شماری کے سرکاری نتائج شائع نہیں کیے تھے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ نئے انتخابات کے لیے اسے کم سے کم سات ماہ درکار ہوں گے کیا الیکٹرونک ووٹنگ مشینیں استعمال ہو پائیں گی؟ نئے انتخابات کے لیے الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کے استعمال کے حوالے سے ابہام تاحال موجود ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے نہ تو کوئی بیان جاری کیا ہے اور نہ ہی صدر کو لکھے خط میں اس کا کوئی ذکر ہے۔ سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے پارلیمان کے ذریعے الیکشن قوانین 2017 میں ترامیم کے ذریعے ای وی ایم اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا قانون منظور کروا لیا تھا۔ تاہم اس قانون سازی میں اپوزیشن کی جماعتیں شریک نہیں ہوئی تھیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت اس بات کی طرف اشارہ کر چکی ہے کہ آئندہ انتخابات ای وی ایم کے ذریعے ہوں گے۔ تاہم کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے لیے اس موقع پر ای وی ایم پر الیکشن کروانا ممکن نہیں ہو گا۔ ‘ایمرجنسی صورتحال میں الیکشن کروانے میں الیکشن کمیشن کے لیے ممکن نہیں ہو گا کہ وہ اتنی جلدی ای وی ایم پر انتخابات کروا سکے۔ اس کے لیے لاکھوں میں مشینیں خریدنا ہوں گی، اس کے بعد لاکھوں کے عملے کو ٹریننگ دینا ہو گی اور پھر نتائج کو مرتب کرنے کا طریقہ کار بنانا ہو گا۔’ ان کے مطابق اس تمام عمل کے لیے وقت درکار ہو گا جو کہ تین مہینے میں مکمل نہیں کیا جا سکتا۔
بیرونِ ملک مقیم پاکستانی شہریوں کو ووٹنگ کا حق دینے کے حوالے سے کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ وہ بھی الیکشن کمیشن کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔ اپوزیشن کی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتیں پہلے ہی ان دو معاملات پر خاص طور پر اعتراضات کر چکی ہیں۔ حزبِ اختلاف کی جماعتیں نئے انتخابات سے پہلے انتخابی اصلاحات چاہتی ہیں جن میں ان دونوں معملات کو بھی دیکھا جانا تھا۔ الیکشن کمیشن نے تاحال اس حوالے سے کوئی وضاحت جاری نہیں کی کہ کیا بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ووٹ ڈال سکیں گے یا نہیں۔ بی بی سی نے اس حوالے سے جاننے کے لیے الیکشن کمیشن کے ترجمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان سے رابطہ نہیں ہو پایا۔ ‘صرف الیکشن کمیشن کو تاخیر کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا’ الیکشن کمیشن نے صدر کو لکھے خط میں بتایا کہ کونسل آف کامن انٹرسٹس کی طرف سے مردم شماری کے نتائج شائع کیے جانے کے بعد الیکشن کمیش نے نئی حلقہ بندیوں کا کام شروع کیا ہی تھا کہ حکومت نے اعلان کر دیا کہ وہ نئی ڈیجیٹل مردم شماری کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے بعد کمیشن کو نئی حلقہ بندیوں کا کام روکنا پڑا تھا۔ خط میں کہا گیا کہ کمیشن نے اس حوالے سے پارلیمانی امور کی وزارت کو دو خط لکھے جن میں رواں سال کے آخر تک ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج شائع کرنے کا کہا گیا تھا تاکہ نئی حلقہ بندیوں کا کام وقت پر مکمل کیا جا سکے۔ تاہم کمیشن کے مطابق ‘انھیں وزارت کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا جس کی وجہ سے حلقہ بندیوں کے کام میں تاخیر ہوئی۔’ الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ انتخابات کروانے کی ذمہ داری صرف کمیشن کی نہیں ہے اور اس کے لیے وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے ملنے والی آرا پر انحصار کرتا ہے۔ اس لیے صرف کمیشن کو کسی تاخیر کا واحد ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ الیکشن کمیشن کے خط میں کہا گیا ہے کہ تین ماہ کی مدت کے علاوہ انھیں حلقہ بندیوں کے لیے مزید چار ماہ درکار ہوں گے۔