فلمی سیٹ پر نقلی زیورات پہنچانے والے جیتیندر سپر سٹار کیسے بنے؟ جانیے

ممبئی: (ویب ڈیسک) ’جیتیندر 80 برس کے ہو گئے ہیں۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے لیکن اس سے بڑھ کر یہ کہ انھوں نے خود کو اس طرح فٹ رکھا ہے کہ 80 سال کی عمر میں بھی وہ 55 سال کے لگتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو وہ ہمارے رول ماڈل ہیں۔ ہم ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

ایسا کہنا ہے معروف اداکار، فلم ساز اور جیتیندر کے بہترین دوست راکیش روشن کا۔ جیتیندر، راکیش روشن اور رشی کپور فلم انڈسٹری کے تین ایسے دوست رہے ہیں، جن کی دوستی کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ جیتیندر جب 80 سال کے ہوئے تو میں نے راکیش روشن سے پوچھا کہ جیتیندر کی فٹنس کا راز کیا ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ ’وہ باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں، کھانے پینے کا خیال رکھتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔‘ فلموں میں کچھ اور ستارے بھی ہیں جن کی عمر 80 یا اس کے آس پاس ہے۔ امیتابھ بچن 11 اکتوبر کو 80 سال کے ہو جائیں گے۔ دھرمیندر 86 سال کے ہو گئے ہیں۔ بشواجیت بھی 85 سال کے ہو چکے ہیں۔ منوج کمار جولائی میں 85 سال کے ہو جائیں گے۔ ان میں منوج کمار مستقل بیمار رہتے ہیں۔ انھیں چلنے پھرنے میں بھی دشواری کا سامنا ہے۔ دوسری جانب امیتابھ بچن کام کے لحاظ سے کافی فٹ ہیں۔ اس عمر میں انھیں دیکھ کر کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے لیکن وہ برسوں سے کئی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ان کی عمر بھی ان کے چہرے سے ظاہر ہوتی ہے۔ بشواجیت کو چلنے پھرنے میں دقت نہیں لیکن انھیں دیکھ کر ان کی عمر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ رندھیر کپور 75 سال کی عمر میں ہی بیمار نظر آتے ہیں۔ انھوں نے ہاتھ میں لاٹھی لے لی ہے۔ دھرمیندر اپنی عمر کے حساب سے کافی فٹ ہیں۔ وہ اپنے فارم ہاؤس پر کھیتی باڑی اور تیراکی بھی کرتے ہیں۔ وہ بھی 86 سال کے بالکل نہیں لگتے۔ ان کی یادداشت بھی بہت اچھی ہے لیکن جیتیندر کے چہرے کی جو چمک ہے وہ کسی اور ستارے میں نہیں ملتی۔ اس سے قبل جیتیندر جب آسمانی رنگ کی جیکٹ اور نیلی شرٹ پینٹ میں اپنی 76 ویں سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے موسیقی کی دھنوں پر رقص کر رہے تھے تو بہ مشکل 50 کے نظر آ رہے تھے۔ دوستوں کی محفل میں کیک کاٹنے سے پہلے اور بعد میں جیتیندر خود اپنی ہی فلم کے گانے ’بار بار دن یہ آئے، بار بار دل یہ گائے‘ گا رہے تھے اور ڈانس کر رہے تھے۔ اس سے پہلے جب جیتیندر نے جے پور میں اپنی 75ویں سالگرہ کی تقریب منائی تو جیتیندر کا جلوہ ہی حیرت انگیز تھا۔ جیتیندر اپنی بیوی شوبھا اور بیٹی ایکتا کے ساتھ ناچتے رہے اور ناچتے ہوئے سبھی کو اپنے ہاتھ سے کیک کھلا رہے تھے۔ جیتیندر کو میں پچھلے 45 سال سے دیکھ رہا ہوں۔ وہ اب بھی تقریباً ویسے ہی نظر آتے ہیں جیسے برسوں پہلے نظر آتے تھے۔ اگر آپ جیتیندر کی زندگی کی کہانی کو دیکھیں تو اس میں بہت سے نشیب و فراز ہیں۔ اگر بہت سی مشکلات ہیں تو کامیابی اور مقبولیت بھی اپنے عروج پر ہے۔ جیتیندر کی زندگی کی جدوجہد ان کی پیدائش سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ 7 اپریل سنہ 1942 کو امرتسر میں پیدا ہونے والے جیتیندر کا اصل نام روی کپور ہے۔ درحقیقت روی کی پیدائش صرف 7 ماہ میں ہی ہو گئی تھی۔ اس لیے والدہ کرشنا اور والد امرناتھ کپور نے اس نازک روی کی پرورش بہت احتیاط سے کی تاکہ ان کی نشوونما میں کوئی کوتاہی نہ ہو۔ دوسری طرف حالات ایسے ہو گئے کہ امرناتھ کپور کو امرتسر سے ممبئی آنا پڑا، جہاں ان کا خاندان گیرگاؤں کی رام چندر بلڈنگ کے ایک چال (چھوٹے حصے) میں رہتا تھا، جس میں ان کے والدین کے ساتھ ان کی دو بہنیں اور ایک بھائی بھی تھے۔ یہ چھ افراد ایک کمرے کے اس گھر میں کرائے پر رہتے تھے لیکن وہاں رہنے والے اور بھی بہت سے لوگوں کے لیے صرف ایک ہی بیت الخلا تھا، جسے استعمال کرنے کے لیے صبح سویرے ایک لمبی قطار لگ جاتی تھی۔ ان کے والد مصنوعی زیورات کا کام کرتے تھے، جس کی وجہ سے وہ ایسے زیورات فلمسازوں کو بھی کرائے پر دیتے تھے، اسی سلسلے میں روی بھی زیورات دینے کے لیے بہت سے سٹوڈیوز میں جایا کرتے تھے۔ گھر کی مالی حالت اچھی نہیں تھی لیکن والد نے ایک اچھا کام یہ کیا کہ انھوں نے روی کو وہاں کے ایک اچھے سینٹ سیبسٹین ہائی سکول میں پڑھایا، جہاں امرتسر کے خاندان کے ایک اور لڑکے جتن کھنہ نے بھی روی کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے تھے۔ جتن جہاں روی کا خاص دوست بن گیا۔ یہ جتن بعد میں راجیش کھنہ کے روپ میں ملک کے پہلے سپر سٹار بنے۔ روی کپور نے بھی جیتیندر کے نام سے فلموں میں اپنا نام بنایا۔ دراصل جیتیندر کو پہلے فلموں میں کام کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا لیکن جتن کو شروع سے ہی اداکاری کا بہت شوق تھا۔ اسے دیکھ کر روی کو بھی اداکاری کا کیڑا لگ گیا۔ جیتیندر نے ایک بار فلموں میں آنے کے معاملے پر کہا تھا کہ ’میں پڑھائی میں بہت کمزور تھا، تب میرے گھر والوں کی مالی حالت بھی خستہ تھی، اگر میں پڑھائی میں اچھا ہوتا تو مجھے اچھی نوکری مل سکتی تھی یا پھر خاندان میں بہت پیسہ ہوتا تو اس سے میں اپنا کاروبار کر سکتا تھا، اس طرح میرے لیے دونوں راستے بند ہو گئے اور میں نے فلموں میں آنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے۔‘ سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد روی نے بھی ممبئی کے ’کے سی کالج’‘میں جتن کے ساتھ بی اے میں داخلہ لیا لیکن روی اپنی بی اے کی تعلیم مکمل نہ کر سکے۔ جتن سے پہلے ہی وہ فلموں میں آ گئے جبکہ راجیش کھنہ کئی سال بعد فلموں میں آئے تھے۔ درحقیقت روی کپور جب راج کمل سٹوڈیو میں نقلی زیورات دینے جاتے تھے تو وہ اکثر فلمساز وی شانتا رام سے ملتے تھے۔ روی اس وقت 17 سال کے تھے کہ ایک دن انھوں نے شانتا رام سے کہا کہ میں فلموں میں کریئر بنانا چاہتا ہوں۔ آپ میری کچھ مدد کریں۔ شانتارام نے فوری طور پر کوئی بڑی مدد دینے سے انکار کر دیا لیکن انھیں اپنی ایک فلم ’نورنگ‘ (1959) میں بہت چھوٹا سا کردار دیا۔ اس کے بعد انھیں ایک اور فلم ’سہرا‘ میں بھی کردار ملا جس میں جیتیندر کو اس وقت کے تجربہ کار اداکار الہاس کے ساتھ ڈائیلاگ بولنا پڑا۔ وہ ایک مختصر ڈائیلاگ تھا ’سردار سردار، دشمن بے دردی سے گولیاں برساتا ہوا آ رہا ہے۔‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب جیتیندر نے اپنی فلمی زندگی کا یہ پہلا ڈائیلاگ بولنے کے لیے کیمرے کا سامنا کیا، تو وہ زوروں سے ہکلانے لگے۔ بہت مشکل سے تقریباً 20 بار ری ٹیک کے بعد جیتیندر وہ مکالمہ بولنے میں کامیاب ہوئے۔ حالانکہ فلموں میں ہیرو کے ڈپلیکیٹ کا کردار اکثر مرد ادا کرتے ہیں اور ہیروئن کا ڈپلیکیٹ اکثر خواتین ہی کرتی ہیں لیکن ایک دن جیتیندر کو شانتا رام کی فلم ’سہرا‘ میں فلم کی ہیروئن سندھیا کا ڈپلیکیٹ بننا پڑا۔ جیتیندر کہتے ہیں کہ ’یہ 1962 کی بات ہے، جب فلم ’سہرا‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ ایک سین میں ہیروئن سندھیا کے ڈپلیکیٹ کی ضرورت تھی لیکن وہاں کوئی ڈپلیکیٹ نہیں ملا۔ ہم چھوٹے چھوٹے کام کرتے تھے۔ اس لیے شانتا رام جی کو خوش کرنے کے لیے انھیں متاثر کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔‘ ’میں نے جوش سے کہا کہ اگر کوئی نہ ملے تو میں ڈپلیکیٹ بن جاتا ہوں، البتہ شانتا رام جی کی ہیروئن کی نقل بننا آسان نہیں تھا۔ انھیں پوری طرح ہیروئن جیسی ایک ایسی عورت چاہیے تھی اور اس کے لیے مجھے اسی شکل میں ڈھالا گيا۔‘ اگرچہ جیتیندر ہر طرح سے شانتارام کو متاثر کرنے میں مصروف تھے لیکن جیتیندر کے بارے میں جس چیز نے انھیں بہت متاثر کیا وہ ان کا مراٹھی بولنا تھا۔

جیتیندر نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’میں نے ممبئی پہنچنے کے فوراً بعد مراٹھی زبان سیکھ لی۔ ہمارے گھر کے آس پاس، سکول میں، کاروبار میں ہر کوئی مراٹھی بولتا تھا۔ ایک دن شانتا رام جی نے مجھے روانی سے مراٹھی بولتے سنا تو وہ چونک گئے کہ پنجابی ہو کر اتنی اچھی مراٹھی بولتا ہے۔‘ جیتیندر کی کچھ ایسی ہی باتوں سے متاثر ہو کر ایک دن شانتا رام نے جیتیندر کو اپنی فلم کے آڈیشن کے لیے بلایا، یہ فلم تھی ’گیت گایا پتھروں نے‘ جس میں ان کی بیٹی راج شری ہیروئن تھیں تاہم یہاں بھی جیتیندر کو آڈیشن میں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جیتیندر کی اداکاری دیکھ کر شانتا رام نے تین دن تک فلم کی شوٹنگ روک دی لیکن اس کے بعد جیتیندر اس طرح جم گئے کہ انھوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ سنہ 1964 میں جب ’گیت گایا پتھروں نے‘ ریلیز ہوئی تو اس فلم کو خوب پسند کیا گیا۔ یہ وہ فلم تھی جس میں شانتا رام نے روی کپور کو جیتیندر کا نام دیا اور انھیں سلور سکرین کا شہزادہ بنا دیا۔ تاہم پہلی فلم ہٹ ہونے کے بعد بھی جیتیندر کو دوسری فلم کے ساتھ آنے میں وقت لگا۔ اس فلم کے تین سال بعد سنہ 1967 میں جیتیندر کی تین فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ’گناہوں کا دیوتا، بوند جو بن گئی موتی اور فرض۔‘ جیتیندر کو پہلی بڑی کامیابی فلم ’فرض‘ سے ملی جس میں جیتیندر کی ہیروئن ببیتا تھیں۔ ’فرض‘ تیلگو سپر ہٹ فلم ’گڑا چاری 116‘ کا ری میک تھا جو دراصل جیمز بانڈ کی فلموں سے متاثر تھی۔ تیلگو میں فلم کا مرکزی کردار کرشنا تھا اور ہیروئن جے للیتا تھیں۔ ’فرض‘ جیتیندر کے لیے کئی لحاظ سے اہم ثابت ہو‏ئی۔ اس فلم کے ساتھ جنوبی ہند کی فلموں کے ریمیک میں جیتیندر کے کام کا آغاز ایسا تھا کہ جیتیندر اس کے بعد ساؤتھ کی ہر ہندی فلم کے ریمیک کے لیے پہلی پسند بن گئے۔ ریمیک میں جیتیندر جتنا کام کسی اور ہیرو نے نہیں کیا۔ ’فرض‘ میں سفید جوتے پہن کر ’مست بہاروں کا میں عاشق‘ گیت پر انھوں نے جو رقص اور ایکشن کیا وہ جیتیندر کا سٹائل بن گیا۔ اس کی وجہ سے جیتیندر کے سفید جوتے مشہور ہوئے اور اس فلم کے ڈانس نے انھیں ’جمپنگ جیک‘ کا خطاب دیا۔ جیتیندر اب تقریباً 20 سال سے فلموں میں کام نہیں کر رہے ہیں۔ اس دوران وہ کبھی کبھار کسی فلم یا ویب سیریز میں بطور مہمان یا خود جیتیندر کے طور پر نظر آتے رہے لیکن 1960 سے 1990 تک کے 30 سال میں جیتیندر نے تقریباً 250 فلموں میں کام کیا اور اس دور کو ’جیتیندر کا دور‘ ہی کہا گیا۔ بہرحال فلمی سفر میں برا وقت بھی آیا۔ ان کے پاس چند ماہ تک کوئی کام نہیں تھا یا جب جیتیندر سنہ 1982 میں پروڈیوسر بنے اور فلم ’دیدار یار‘ بنائی تو فلم کے فلاپ ہونے کی وجہ سے وہ بہت زیادہ قرض میں ڈوب گئے۔ جیتیندر کہتے ہیں کہ ’میرے ساتھ ایسا کئی بار ہوا جب میں سوچتا تھا کہ اب کیا ہو گا لیکن خدا کا شکر گزار ہوں کہ ہر بار میں ان مشکل لمحات سے جلد نکل آیا۔‘ سنہ 1960 سے 1980 کے 20 سال میں جیتیندر نے ’دھرتی کہے پکار کے، میرے حضور، جینے کی راہ، کھلونا، ہم جولی، کارواں، انوکھی ادا، ناگن، ادھار کا سندور، دھرم ویر، اپنا پن، بدلتے رشتے، سورگ نرک، لوک پر لوک اور ’آشا‘ جیسی کئی ہٹ فلمیں دیں۔ اس دوران ان کی ’پریچے، خوشبو، کنارا اور ودائی جیسی آؤٹ آف دی باکس فلمیں بھی آئیں۔ وہ دن جب جیتیندر اپنی فلم ’دیدار یار‘ کے فلاپ ہو جانے سے بہت پریشان تھے، انھیں فلم ’ہمت والا‘ ملی جو ساؤتھ کی فلم کا ہندی ریمیک ہے۔ اس کے اصل جنوبی ورژن میں جیا پردا ہیروئن تھیں لیکن سری دیوی کو اس ہندی فلم میں کاسٹ کیا گیا تھا۔ یہ یقینی طور پر ایک بڑا خطرہ مول لینا تھا۔ ایک تو جیتیندر کی ’دیدار یار‘ فلاپ ہوئی تو دوسرے سری دیوی بھی اپنی پہلی ہندی فلم سولہ ساون‘ کے ساتھ فلاپ ہوئیں لیکن ’ہمت والا‘ اتنی چلی کہ لوگ جیتیندر اور سری دیوی دونوں کی ناکامیوں کو بھول گئے۔ اس کے بعد جیتیندر ساؤتھ کے فلمسازوں کو اس قدر عزیز ہو گئے کہ وہاں کا ہر فلمساز جیتیندر کو لینے کے لیے بے چین تھا۔ ہیرو جیتیندر ہیروئن چاہے سری دیوی، جیا پردا یا کوئی اور۔ جیتیندر کی سنہ 1981 سے 1990 تک کی فلموں میں ’تحفہ، موالی، مقصد، پاتال بھیروی، سنجوگ، سورگ سے سندر، سنگھاسن، سہاگن، اولاد اور میرا پتی صرف میرا ہے‘ جیسی فلمیں ملک بھر کے سنیما گھروں پر چھائی رہیں۔ شانتا رام نے روی کو جیتیندر بنا کر ایک نیا نام دیا۔ اس نام نے جیتیندر کو زندگی میں سب کچھ دیا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا نام روی کپور بھی ان کے ساتھ چلتا رہا۔

ایک تو یہ کہ جیتیندر نے جو فلمیں کیں ان میں تقریباً 30 ایسی فلمیں تھیں جن میں ان کے کردار کا نام روی تھا۔ کچھ میں، روی کپور بھی تھا جبکہ ریکھا جیسی اداکارہ جیتیندر کو روی کے نام سے بھی پکارتی رہیں۔ یہاں تک کہ جیتیندر کی بیٹی ایکتا کپور اپنا پورا نام ایکتا روی کپور لکھتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایکتا کو پدم شری ایوارڈ سے نوازا گيا اور جب وہ راشٹرپتی بھون کے دربار ہال میں یہ اعزاز حاصل کرنے پہنچی تو انھیں ایکتا روی کپور کے نام سے بلایا گیا۔ فٹنس منتر 30 سال پہلے اپنایا تھا جیتیندر کو ہمیشہ سے کھانے پینے کا شوق رہا لیکن 1990 کی دہائی تک ان کی یہ اور کچھ دوسری بری عادتیں ان کی زندگی کو کھوکھلا کرنے لگیں۔ بہت زیادہ کھانا، بہت زیادہ شراب پینا، رات گئے تک تاش کھیلنا اتنا بڑھ گیا کہ جیتیندر کو احساس ہوا کہ یہ سب انھیں برباد کر دے گا۔ اس کے بعد وہ روحانیت کی طرف مائل ہو گئے اور اپنے کھانے پینے کو بہتر کیا۔ مجھے یاد ہے جب میں نے 1993 میں دلی کے چھتر پور فارم ہاؤس کے علاقے میں ایک ٹیلی ویژن سیٹ اور کیسٹ بنانے والے کی پارٹی میں جیتیندر کو زعفرانی لباس میں ملبوس دیکھا تو خیال آیا کہ انھوں نے کسی فلم کے لیے یہ روپ دھار لیا ہو گا لیکن جب میں نے جیتیندر سے پوچھا تو تب جیتیندر نے جواب میں کہا کہ کسی فلم میں نہیں، میں نے کچھ دن تک اس فارم میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘ بعد میں جب ایکتا کپور نے ’ہم پانچ، پڑوسن اور ایتیہاس‘ جیسے سیریل بنا کر اپنے کرئیر کا آغاز کیا تو جیتیندر اپنی بیوی شوبھا کے ساتھ دلی آیا کرتے تھے لیکن جیتیندر پھر بھی کھانے پینے سے پرہیز کرتے نظر آئے۔ ’سن این سینڈ‘ طویل عرصے تک جیتیندر، راکیش روشن اور رشی کپور جیسے دوستوں کا شام کا ٹھکانہ تھ، لیکن بعد میں جیتیندر نے اس ہوٹل کے ہیلتھ کلب کو اس طرح اپنایا کہ وہ کورونا کی وبا کے دور سے پہلے روزانہ یہاں آتے رہے۔ ’سن این سینڈ‘ کے ہیلتھ کلب کے سپروائزر پرب کہتے ہیں کہ ’جیتیندر جی کووڈ سے پہلے کئی سال تک مسلسل یہاں آتے تھے۔ وہ اپنی صحت کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ وہ ہر لمحہ اپنے وزن کو لے کر پریشان رہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ ہیلتھ کلب میں کم از کم ایک گھنٹہ وزن اٹھاتے، وہیں رہ کر اپنا وزن بھی چیک کرتے۔‘ جیتیندر نے بتایا تھا کہ ’اگر میں نے اپنے مشروبات، کھانے اور دیر رات تک چلنے والی محفلوں پر قابو نہ رکھا ہوتا تو میں کہیں کا نہ رہتا۔ میں نے بروقت اپنی تمام بری عادتوں کو دور کیا اور اپنے کھانے پینے پر کنٹرول کیا تو آج میں فٹ ہوں۔‘