ممبئی: (ویب ڈیسک) انڈیا کی شمالی ریاست بہار میں پولیس نے آٹھ افراد کو ایک پل ‘چوری‘ کرنے اور اسے کباڑ کے طور پر فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ دہلی میں بی بی سی کی گیتا پانڈے نے پولیس، مقامی رپورٹرز اور وہاں کے مقامی گاؤں والوں سے بات کی تاکہ چوری کی کہانی بیان کی جا سکے۔
کسی پل کو کیسے چوری کیا جا سکتا ہے؟ گذشتہ ہفتے کی ایک صبح جب چار پانچ آدمی، جن میں سے کچھ ریاستی حکومت کے محکمہ آبپاشی کے اہلکار تھے، سہسرام شہر کے قریب واقع امیاور گاؤں میں زمین کی کھدائی کرنے والی مشین اور گیس کاٹنے والی ٹارچ لے کر آئے تو مقامی دیہاتی بہت خوش ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ آخر کار حکومت نے ایک پرانے، غیر مستعمل پل کو ہٹانے کی ان کی درخواست پر کام شروع کر دیا ہے۔ تین دنوں تک، یہ لوگ صبح سات بجے سائٹ پر پہنچتے اور شام ہونے تک کام کرتے، پل کی باقیات کو توڑتے، گیس ٹارچوں سے لوہے کو کاٹتے اور زمین کو ڈھیلا کرنے کے لیے کھدائی کرنے والی مشین کا استعمال کرتے۔ اس کے بعد پل میں استعمال کی گئی دھات (لوہے) کو کرائے کی وین میں لے جا کر ایک مقامی سکریپ ڈیلر (کباڑی) کے گودام میں جمع کراتے گئے۔ پل سے صرف 200 میٹر کے فاصلے پر رہنے والے مقامی صحافی جتیندر سنگھ نے بی بی سی کو بتایا ‘کسی کو شک نہیں ہوا کہ یہ ڈکیتی تھی۔’ انھوں نے مزید کہا ‘میں روزانہ صبح کی سیر کے لیے اس طرف جاتا ہوں۔ گذشتہ ہفتے میں نے کچھ لوگوں کو وہاں کام کرتے دیکھا۔ گاؤں کے بہت سے لوگوں نے بھی انھیں دیکھا۔’ پل کو توڑنے کے کام کی مبینہ طور پر نگرانی محکمہ آبپاشی کے ایک جز وقتی کارکن اروند کمار کر رہے تھے۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ ‘کیا اس کام کے لیے سرکار کی جانب سے منظوری حاصل ہے۔’ سینیئر پولیس اہلکار آشیش بھارتی اس تفتیش کی سربراہی کر رہے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اروند کمار ان آٹھ افراد میں شامل ہے جنھیں گرفتار کیا گیا ہے۔ آشیش بھارتی نے کہا ‘محکمہ آبپاشی کے اہلکار رادھے شیام سنگھ، وین کے مالک اور کباڑخانے کے مالک بھی گرفتار ہونے والوں میں شامل ہیں۔
ہم کم از کم چار اور لوگوں کو تلاش کر رہے ہیں۔’ اس معاملے میں اب تک آٹھ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تقریباً 60 فٹ (18 میٹر) لمبا اور 12 فٹ بلند لوہے کا پل آرہ نہر پر سنہ 1976 میں بنایا گیا تھا اور سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل سے اس کے قریب ہی ایک کنکریٹ کا پل تعمیر ہونے کے بعد سے وہ استعمال میں نہیں تھا۔ پاس کے گاؤں کے شیلیندر سنگھ نے کہا کہ یہ پل انتہائی خراب حالت میں تھا۔ انھوں نے کہا ‘وقت کے ساتھ پل میں استعمال ہونے والی تمام لکڑی ایک ایک کرکے بکھر چکی تھی اور لوہے زنگ آلود ہو چکے تھے۔ چوروں نے پل میں استعمال ہونے والے لوہے کے ٹکڑوں کو پہلے بھی چوری کرنا شروع کر دیا تھا تاکہ اسے دوسرے استعمال میں لایا جا سکے یا چند روپے میں سکریپ کے طور پر فروخت کیا جا سکے۔ لیکن گذشتہ ہفتے جو ہوا وہ دن دھاڑے ڈکیتی تھی۔’ جیتیندر سنگھ نے بتایا کہ چوری سے چند دن پہلے ہی گاؤں کے سربراہ نے حکام کو ایک تحریری درخواست بھیجی تھی کہ پل کو توڑ دیا جائے کیونکہ وہ صحت کے لیے خطرہ بن گیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ متعدد مواقع پر انھوں نے مویشیوں اور یہاں تک کہ انسانوں کی لاشیں بھی وہاں دیکھیں جو اوپر سے تیرتی آتیں اور پل میں پھنس کر رہ جاتیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کی بدبو ناقابل برداشت ہوتی تھی۔ چور کیسے پکڑے گئے؟ پڑوس کے گاؤں کے ایک رہائیشی پون کمار نے 5 اپریل کو یعنی پل کے توڑے جانے کے تیسرے اور آخری دن سنا کہ کہ زنگ آلود بیکار لوہے کا پل ہٹا دیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ‘میں نے محکمہ آبپاشی کے اہلکار رادھے شیام سنگھ کو فون کرنے کی کوشش کی، لیکن جب انھوں نے جواب نہیں دیا، تو میں نے ایک سینیئر افسر کو فون کرکے پوچھا کہ انھوں نے پل توڑنے کے ضابطے پر کیوں عمل نہیں کیا: حکام سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ٹینڈر جاری کریں اور کام سب سے کم بولی لگانے والے کو دیا جائے۔’ اس سینیئر اہلکار نے بتایا کہ انھوں نے کوئی حکم جاری نہیں کیا ہے اور انھیں اس بات کا علم نہیں کہ پل کو توڑ کر ہٹایا جا رہا ہے۔ اس کے بعد پولیس میں شکایت درج کرائی گئی، جس نے تحقیقات شروع کی اور چھاپے مارے۔ مسٹر بھارتی نے کہا کہ ‘ہم نے ایک جی سی بی مشین [زمین کی کھدائی کرنے والی]، گیس کاٹنے والی ٹارچ اور سلنڈر، ایک پک اپ وین اور 247 کلو گرام دھات ضبط کر لیا ہے۔’ روس کے آرکٹک علاقے مرمانسک میں دھات کے چوروں نے ایک ناکارہ ریلوے پل سے دھات نکال لیے تھے روس کے آرکٹک علاقے مرمانسک میں دھات کے چوروں نے ایک ناکارہ ریلوے پل سے دھات نکال لیے تھے چور دھات کیوں چوری کرتے ہیں؟ انڈیا کے بہت سے حصوں میں، چور باقاعدگی سے لوہے کے بنے پانی کے پائپ چوری کرتے ہیں اور انھیں غیر قانونی فیکٹریوں کو فروخت کرتے ہیں جو چھوٹی، خام بندوقیں بناتے ہیں۔ چور باقاعدگی سے مین ہول کے ڈھکن لے کر بھاگ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ٹرینوں میں ٹوائلٹ مگ کو بھی نہیں چھوڑتے ہیں۔ کچھ سال پہلے، جب انڈین ریلوے نے اپنے بیت الخلاء کو اپ گریڈ کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا تو حکام نے کہا کہ وہ چوری کو روکنے کے لیے دھات کے مگوں کو زنجیر کے ساتھ باندھر کر رکھنا جاری رکھیں گے۔ لیکن دھات کی یہ چوریاں صرف انڈیا کا مسئلہ نہیں ہیں، یہ امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے کئی حصوں میں بھی عام ہے۔ برطانیہ میں، بجلی اور سگنلنگ کیبلز، اوور ہیڈ لائن کے آلات اور ریلوں کو جگہ پر رکھنے کے لیے استعمال ہونے والے کلپس کی چوری کے نتیجے میں سالانہ ہزاروں گھنٹے کی تاخیر ہوتی ہے۔ اور یورپی یونین ایجنسی برائے نفاذ قانون و تعاون یعنی یوروپول کے مطابق دھات کی چوری صنعت اور مقامی کاروبار کو تباہ کن نقصان پہنچاتی ہے، اور پورے یورپ میں ضروری عوامی خدمات میں بڑے خلل کا باعث بنتی ہے۔ پل دوسری جگہوں پر بھی چوری ہوئے ہیں امریکہ میں، اکتوبر سنہ 2011 میں مغربی پنسلوانیا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں چوروں نے 50 فٹ کا سٹیل کا پل چوری کر لیا تھا۔دو سال قبل، روس کے آرکٹک علاقے مرمانسک میں دھات کے چوروں نے ایک ناکارہ ریلوے پل سے دھات نکال لیے تھے۔ یہ پل 75 فٹ لمبا تھا اس سے 56 ٹن وزں کے دھات نکال لیے گئے تھے۔ اور سنہ 2012 میں جمہوریہ چیک میں دھات کے چوروں نے پیدل چلنے والوں کے لیے بنائے گئے پل کو چرانے کے لیے جعلی دستاویزات کا استعمال کیا، اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ سائیکل کے نئے راستے کے لیے اسے ہٹا رہے ہیں۔